کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 17
بیس اونٹ ذبح ہوتے۔[1] ایک مرتبہ جب لوگ عشاء کا کھانا کھا چکے تو حضرت عمر نے حکم دیا کہ جن لوگوں نے ہمارے دسترخوان پر کھانا کھایا، اُنہیں شمار کیا جائے۔ اگلے دن گنتی کی گئی تو وہ سات ہزار پائے گئے۔ پھر اُنہوں نے حکم دیا کہ جو لوگ حاضر نہیں ہو سکتے مثلاً خواتین مریض اور بچے وغیرہ ان کی گنتی کی جائے، گنتی ہوئی تو وہ چالیس ہزار نکلے، کچھ دن گزرے تو لوگوں کی تعداد بڑھ گئی اُنہوں پھر گنتی کا حکم دیا۔ تو معلوم ہوا کہ خود حاضر ہو کر کھانا کھانے والوں کی تعداد دس ہزار اور دوسروں کی تعداد پچاس ہزار تک پہنچ گئی۔بارش ہونے تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔[2] اتنی بڑی تعداد کو کھانا کھلانا وسائل کے اعتبار سے تو خیر مشکل ہی ہے۔ البتہ انتظامی لحاظ سے بھی بڑا مشکل کام ہے کہ پچاس ہزار اَفراد کو مسلسل نوماہ تک صبح شام پکا پکایاکھانا ایک محدود علاقے کے اندر فراہم ہوتا رہے۔ حجاز میں غذائی سامان کی تقسیم جیسا کہ پہلا عرض کیا جا چکا ہے کہ حضرت عمر کے لائحۂ عمل کے دو حصے تھے۔ ایک حصہ مدینہ منورہ کےلیے، دوسرا مدینہ منورہ سے باہر کے علاقوں کے لیے جس میں پورا حجاز شامل ہے۔ہمارے استاد شیخ محمد السید الوکیل فرماتے ہیں کہ اس لائحۂ عمل کی ترتیب میں حضرت عمر کے پیش نظر مقصد یہ تھا کہ لوگ اپنے اپنے علاقوں میں قیام رکھیں اور وہ اس بات پر اطمینان محسوس کریں کہ خلیفہ ان سے غافل نہیں اور یہ کہ طعام ان کے پاس ان کی قیام گاہ پر ہی پہنچے گا۔ در اصل حضرت عمر اس طرح لوگوں میں پھیلے ہوئے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے تھے کہ جس کے تحت لوگ مدینہ کی طرف ہجرت کر کے آ رہے تھے اور دار الخلافہ کی طرف بھاگ رہے تھے۔ اگر سب لوگ مدینے چلے آتے تو مدینہ میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہتی اور مصیبت دو چند ہو جاتی۔ پہلے تو صرف غذائی سامان کی غیر موجودگی کا سامنا تھا، اب رہائش اور پناہ گاہ کی فراہمی بھی مسئلہ بن جاتی۔ شاید اس اقدام سے خلیفہ کا ایک مقصد یہ
[1] ایضاً: ۳؍ ۳۱۵ [2] ایضاً:۳؍ ۳۱۶۔۳۱۷