کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 16
نہیں سکتے تھے، ان کے لیے آٹا کھجور اور سالن ان کے گھروں میں بھجواتے، چنانچہ آپ میری قوم کے لوگوں کے پاس ان کی ضرورت کا سامان ماہ بہ ماہ بھجواتے رہتے تھے۔''[1]
ایک اور روایت کے مطابق اُنہوں نے جبانہ میں کچھ لوگوں کو ٹھہرایا اور پھر بار باران کی اور دوسروں کی خبر گیری کیا کرتے تھے۔[2]
۷۔ مدینہ میں ریاستی دسترخوان
مدینہ میں جو لوگ پہلے سے رہائش پذیر تھے اور جو پناہ گزیں بن کے آئے، ان میں مرد وخواتین بوڑھے اور بچے کمزور بیمار ہر قسم اور ہر عمر کے افراد موجود تھے۔ ہر ایک کے پاس نہ تو پکانے کا سامان تھا، نہ ہی ہر شخص پکانے کے قابل تھا۔ اس لیے حضرت عمر نے مدینہ منورہ میں بیت المال کی طرف سے خلافتی دسترخوان کی روایت قائم کی۔ وہ روٹی کو روغن زیتون میں بھگو کر ثرید بناتے تھے اور ایک دن چھوڑ کر جانور ذبح کر کے اس کا گوشت ثرید پر ڈالتے تھے۔ حضرت عمر نے بڑی بڑی دیگیں چڑھا کر رکھی تھیں جن پر کام کرنے والے لوگ صبح سویرے اٹھتے اور 'کرکور'[3] تیار کرتے اور جب صبح ہوتی تو مریضوں کو کھانا کھلاتے، 'عصیدہ' [4]تیار کرتے۔ حضرت عمر کے حکم سے ان دیگوں میں تیل ڈال کر گرم کیا جاتا،جب اس کی تیزی اور گرمی ختم ہو جاتی تو روٹی کی چوری تیار کی جاتی اور اس پر یہی تیل ڈال دیا جاتا۔[5]
پھر آواز لگانے والا لوگوں کو بلاتا کہ من أحب أن يحضر طعامًا فيأكل فليفعل ومن أحبّ أن يأخذ ما يكفيه وأهله فليأت فليأخذه[6]
''جو شخص چاہے کہ حاضر ہو کر کھانے میں شریک ہو تو آ جائے اور جو کوئی چاہتا ہو کہ اپنے لیے اور اپنے اہل وعیال کے لیے ساتھ لے جائے تو وہ ساتھ لے جائے۔''
پھر جب حضرت عمرو بن العاص نے امدادی سامان بھیجا تو دسترخوان خلافت پر ہر روز
[1] ایضاً
[2] اخبار عمر: ص ۱۱۱
[3] کَرْ كُور: ایک قسم کا کھانا ہے۔
[4] ایک کھانا جو آٹا اور گھی ملا کر بنایا اور پکایا جاتا ہے، اس کی جمع عصائد ہے۔ (الروائد:۲؍ ۱۰۲۹)
[5] طبقات ابن سعد:۳؍۳۱۷
[6] ایضاً:۳؍ ۳۱۱