کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 15
Working plan تیار کیا جس کے دو حصے تھے: ایک حصہ دار الخلافہ یعنی مدینہ منورہ کے لیے تھا جبکہ دوسرا حصہ دیگر علاقوں کے لیے تھا۔
مدینہ منورہ میں تقسیم
مدینہ منورہ مسلمانوں کا روحانی مرکز تو ہے ہی، البتہ اس کے ساتھ ساتھ دارالخلافہ بھی تھا۔ جب قحط شروع ہوا اور اس میں شدت پیدا ہوئی تو لوگ ہر طرف سے چل کر مدینہ منورہ آنے لگے۔چنانچہ امیر المؤمنین نے چند منتظمین کا تقرر کیا جو لوگوں کی خبر گیری کر سکیں اور غذائی سامان تقسیم کر سکیں۔ابن سعدکی روایت کے مطابق:
'' رمادۃ کے سال عرب لوگ ہر طرف سے چل کر مدینہ منورہ پہنچے۔ جہاں عمر بن خطاب نے چند لوگوں کو مقرر کیا جو ان کی خبر گیری کریں، ان کے درمیان طعام اور سالن تقسیم کر سکیں۔ان میں یزید بن اُخت النمر، مسور بن مخرمہ، عبد الرحمٰن بن عبد اور عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود وغیرہم شامل تھے۔ رات کو یہ لوگ حضرت عمر کے پاس جمع ہوتے اور اپنی ساری کارگزاری اُن کو بتاتے۔ ان میں سے ہر شخص مدینہ کے ایک مخصوص علاقے پر مقرر تھا۔ اس زمانے میں (باہر سے آئے ہوئے) لوگ ثنیۃ الوداع سے راتج، بنی حارثہ، بنی عبد الاشہل، بقیع اور بنی قریظہ کے علاقے تک پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔ جبکہ کچھ لوگ بنی سلمہ کے علاقے میں بھی تھے اور ان (مہاجرین) نے مدینہ منورہ کو گھیر رکھا تھا۔''[1]
جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے۔ سب سے پہلی امداد حضرت ابو عبیدہ نے لےکر آئے تھے جو اُنہوں نے خود تقسیم کی۔ بعد میں آنے والے امدادی سامان کی تقسیم مذکورہ بالا حضرات کے سپرد ہوئی اور سب سے بڑھ کر خود امیر المؤمنین ان مہاجرین کی خدمت کیا کرتے تھے۔ اپنی پیٹھ پر بوریاں لادتے، ان کے لیے کھانا پکاتے اور رہائش کا بندوبست کرتے تھے۔ جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔مالک بن اوس کہتے ہیں کہ
''رمادہ کےسال میری قوم کے سو گھرانے عمررضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ آئے اور جبانہ کے مقام پر ٹھہرے، چنانچہ جو لوگ عمر کے پاس حاضر ہوئے وہ ان کو کھلاتے اور جو آ
[1] طبقات ابن سعد:۳؍۳۱۷