کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 14
المؤمنین پڑ گیا۔ حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ کے زمانے تک اسی ذریعے سے غلہ پہنچتا رہا لیکن بعد کے اُمرا نے اس پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔ اس میں ریت بھر گئی اور یوں یہ راستہ منقطع ہو گیا۔[1]
اس پورے واقعے سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ قلیل المدت یا فوری نوعیت کے اقدامات کے ساتھ ساتھ حضرت عمر فاروق نے طویل المدت اقدامات بھی کیے جس سے مدنی اور مصری معیشت پر دوررَس اثرات پڑے۔ مدینہ منورہ کے جنوب میں جار نامی حجاز کی بندرگاہ تھی۔ اس بحری راستے سے سامان جار پہنچتا اور جار سے پھر مکہ مدینہ اور یمن تک چلا جاتا[2]۔ چنانچہ طبری نے مذکورہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
"ولم ير أهل المدينة بعد الرمادة مثلها"[3]
یعنی'' اہل مدینہ نے رمادہ کے بعد پھراس جیسی صورتحال نہیں دیکھی۔''
لیکن امدادی سرگرمیاں صرف یہاں تک محدود نہ تھیں بلکہ اسلامی ریاست کے ہر علاقے سے امدادی سامان پہنچنا شروع ہوا۔ چنانچہ طبری اور ابن الاثیر دونوں نے یہ الفاظ نقل کیے کہ
"وتتابع الناس واستغنى أهل الحجاز"[4]
''پھر لوگ (امدادی سامان لے کر) پے درپے آنے لگے حتیٰ کہ اہل حجاز مستغنی ہو گئے۔''
۶۔ امدادی سامان کی تقسیم کے لیے منتظمین کا تقرر
امدادی سامان مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد ایک مشکل کام باقی رہ گیا تھا اور وہ تھا امدادی سامان کی تقسیم۔ جن حضرات کو اس قسم کا کوئی تجربہ ہوا ہے، وہ جانتے ہیں کہ تقسیم انتہائی مشکل کام ہے۔ کم سامان اگر ترتیب اور نظم وضبط کے ساتھ تقسیم ہو تو بڑی مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن نظم وضبط کے فقدان کی صورت میں زیادہ وسائل کے باوجود مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لائحۂ عمل
[1] نہایۃ الارب فی فنون الادب:۱۹؍۳۲۷
[2] الفاروق از علامہ شبلی نعمانی:ص ۲۳۳
[3] تاریخ طبری:۴؍۱۰۰
[4] ایضاً