کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 13
مواد کی قیمت مصر کی قیمتوں کے برابر ہو تو میں دوبارہ نہر کی کھدائی کر لوں اور اس سے شاخیں نکلوا دوں، جواب میں حضرت عمر نے لکھا کہ یہ کام کر دو اور اس میں جلدی کرو۔ لیکن مصریوں نے حضرت عمرو بن العاص کی خدمت میں عرض کیا کہ خراج کے طور پر آپ کو کافی رقم ملی رہی ہے اور آپ کا امیربھی آپ سے راضی بھی ہے،(اس لیے نہر کھدوانے کی ضرورت نہیں) کیونکہ اگر یہ منصوبہ مکمل ہوا تو خراج میں کمی واقع ہو گی چنانچہ حضرت عمرو بن العاص نے حضرت عمر کو اس کے بارے میں لکھا کہ اس منصوبے سے مصر کے خراج میں کمی ہو گی اور معیشت خراب ہو جائے گی۔ جواب میں حضرت عمر نے پھر لکھا کہ منصوبہ پر عمل درآمد کرو اور عجلت سے کام لو۔ اگر اس سے مدینہ آباد اور سدھر سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ مصر کو برباد کرے۔ چنانچہ حضرت عمرو بن العاص نے بحر قلزم سے سے نہر نکالی۔ نتیجۃً مدینہ منورہ کا نرخ مصر کے نرخوں کے برابر رہا اور اس سے مصر کی خوشحالی میں بھی اضافہ ہوا۔''[1]
البتہ ابن الجوزی کی روایت میں "أخرب اللّٰه مصر" کی بجائے "أخرب اللّٰه خراج مصر" کے الفاظ ہیں یعنی اللہ تعالیٰ مصر کے خراج کو غارت کر دے۔میرے خیال میں یہی الفاظ زیادہ مناسب ہیں۔غالباً اسی روایت کو بنیاد بنا کر ابن الاثیر اور ابن خلدون دونوں نےلکھا ہے کہ "وأصلح عمرو بن العاص بحر القلزم وأرسل فيه الطعام"
'' عمرو بن العاص نےبحر قلزم کی اصلاح کی اور اسی راستےغذائی سامان بھیجا۔''
لیکن ظاہر ہے کہ مصر اور مدینہ منورہ میں بار بار کی مراسلت اور درمیانی طویل فاصلہ وقت کا متقاضی ہے۔ اس لیے ایلہ (عقبہ) کی بندرگاہ اور بحر قلزم والی دونوں روایات کے درمیان تطبیق یوں کی جا سکتی ہے کہ ابتداءً انہوں نے فوری کاروائی کرتے ہوئے ایلہ سے غذائی سامان بھجوایا اور پھر نہر مذکور کی صفائی کھدائی کر کے اسے ٹھیک کیا اور بعد میں غلہ اسی راستے بھجواتے رہے۔
بعض مؤرخین نےلکھا ہے کہ مذکورہ نہر کی کھدائی صفائی تقریباً ایک سال میں مکمل ہوئی اور سال مکمل ہونے سے پہلے ہی اس میں کشتیوں کی آمدو رفت شروع ہو گئی۔ اس نہر کا نام خلیج امیر
[1] تاریخ طبری:۴؍۱۰۰