کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 12
بسم اللّٰه الرحمٰن الرحيم من عبد اللّٰه عمر أمير المؤمنين إلىٰ العاصی ابن العاص سلام عليك أما بعد: أفتراني هالكًا ومن قبلي وتعيش أنت ومن قبلك، فياغوثاه يا غوثاه يا غوثاه! ''یعنی بسم اللّٰه الرحمن الرحيم۔ اللہ کے بندے امیر المؤمنین عمر کی طرف سے عاص بن العاصی کے نام۔ امام بعد: کیا تم مجھے اور میرے پاس والوں کو ہلاک ہوتے دیکھو گے اور تم اور تمہارے پاس والے زندہ رہیں گے۔ مدد! مدد! مدد!'' حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا : سلام ہو آپ پر۔ میں آپ کے سامنے اس اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ اما بعد! مدد آپ کے پاس پہنچنے والی ہے،آپ اطمینان رکھیں۔ میں ایسا قافلہ آپ کے پاس بھیج رہا ہوں جس کا اگلا سرا آپ کے پاس اور آخری سرا میرے پاس ہو گا۔''[1] چنانچہ اُنہوں نے فوری طور پر بَری راستے سے آٹے سے لدے ہوئے ایک ہزار اونٹ اور پانچ ہزار کمبل بھیجے۔[2]یہ امداد سمندر کے راستے جدہ اور جدہ سے مکہ مکرمہ پہنچی۔ [3]لیکن کہاں سے روانہ ہوئی تو اس میں اختلاف ہے، محمد حسین ہیکل کی رائے میں ایلہ (موجودہ عقبہ) سے روانہ ہوئی تھی۔[4]جبکہ ابن الاثیر اور ابن خلدون کی رائے میں یہ امدادی سامان بحر قلزم سے روانہ ہوا تھا[5]۔ صورت حال جو بھی ہو سمندری راستے سے امداد آنا تاریخی طور پر ثابت شدہ ہے اور اس کی تفصیلات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہیں۔بقول طبری حضرت عمر کے خط کے جواب میں حضرت عمرو بن العاص نےلکھا : '' بعثتِ نبوی کے وقت بحر شامی سے ایک نہر کھود کر نکالی گئی جو بحیرہ عرب میں گرتی تھی جسے رومیوں اور قبطیوں نے بند کر دیا تھا۔ اگر آپ چاہیں کہ مدینہ منورہ میں غذائی
[1] طبقات ابن سعد: ۳؍ ۳۱۰ [2] ایضاً: ۳؍ ۳۱۹ [3] البدایۃ والنہایۃ: ۷؍ ۱۰۳ [4] حضرت عمر فاروق اعظم: ص ۳۴۰ [5] الکامل فی التاریخ: ۲؍ ۵۵۶