کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 10
حالات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے رات کے وقت خود چل کر جائزہ لیا کرتے تھے اور جس کسی کو امداد کا مستحق خیال کرتے، رات کی تاریکی میں ہی ضرور مدد فراہم کر دیتے۔ یہ عادت رماده کے زمانے میں بھی جاری رہی بلکہ رمادہ کے زمانے میں وہ معاشرتی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھ رہے تھے اور ان کا تجزیہ بھی کیا کرتے۔ امام ابن کثیررحمہ اللہ نقل کرتے ہیں کہ رمادہ کے سال اُنہوں نے رات کے وقت مدینہ منورہ کی گلیوں میں گشت کیا تو کسی کو ہنستے نہیں پایا، نہ ہی لوگوں کو اپنے گھروں میں حسبِ عادت گفتگو کرتے سنا اور نہ کسی مانگنے والے کو مانگتے دیکھا۔ یہ صورت حال چونکہ خلافِ معمول تھی اس لیے اُنہوں نے فوراً محسوس کیا، چنانچہ اس کے سبب کے بارے میں دریافت کیا۔ اُنہیں بتایا گیا کہ اے امیر المؤمنین! سوال کرنے والے سوال کرتے رہے لیکن اُنہیں کچھ نہیں دیا گیا، اس لیے اُنہوں نے مانگنا اور سوال کرنا ہی چھوڑ دیا۔ اس کے علاوہ لوگ پریشانی اور تنگ دستی کا شکار ہیں، اس لیے نہ توحسبِ معمول گپ شپ لگاتے ہیں اور نہ ہی ہنستے ہنساتے ہیں۔ ایسے حالات میں عمر صرف سرکاری رپورٹوں پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ رات کے اندھیرے میں خود جا کر حالات معلوم کرنا ضروری سمجھتے تھے۔
۵۔ امداد کی اپیل
کتبِ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کی کوشش یہ تھی کہ قحط سالی سے متاثرہ عوام کے دکھوں کا مداوا بیت المال سے کیا جائے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ بیت المال میں جو کچھ تھا، وہ اُنہوں نے خرچ کر دیا، یہ ان کا معمول تھا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری کے نام اپنے ایک مکتوب میں اُنہوں نے حکم دیا کہ سال میں ایک دن ایسا مقرر کرو جب خزانہ میں ایک درہم تک باقی نہ رہے اور وہاں جھاڑو لگا دی جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہو کہ میں نے ہر حقدار کا حق ادا کردیا ہے۔[1]
صرف مقامی بیت المال سے امداد پر انحصار کی دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اُنہیں اُمید تھی کہ شاید قحط کا سلسلہ جلد ختم ہو جائے گا، مصیبت ٹل جائے گی اور باہر سے امداد منگوانے کی ضرورت نہ رہے گی لیکن خشک سالی جیسے جیسے طول پکڑتی گئی، عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا
[1] حضرت عمر کے سرکاری خطوط: ص ۲۳۲