کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 98
اسٹیشنز ہیں اور ان کے لیے ایسے لوگ ہیں جنھیں 'آپ ہمارے اتحادی اور کاروباری شراکت دار ہیں' ایسے الفاظ سے بہلایا پھسلایا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے پہلے یہی معاملہ رہا ہو لیکن اب عرب عوام اس حقیقت کو جان گئے ہیں اور وہ جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ ان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ وہ اب اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ برابری کا برتاؤ کیا جائے۔ اب ایسے تجارتی وفود کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے جن میں کٹڑ صہیونی شامل ہوں جو اپنی چیزیں بیچنے اور دھوکا دہی سے جیبیں بھرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں،ایسے صحافیوں کو بھی خوش آمدید نہیں کیا جانا چاہیے جو یہاں کے داخلی مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے آتے ہیں اور ان سے کسی قسم کی کوئی ہمدردی ظاہر نہیں کی جانی چاہیے۔ مغرب کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ ہم بعض پہلوؤں میں اگرچہ ناکام ہوگئَے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔اس مقصد کے لیے ہمیں امن درکار ہے اور آپ انصاف اور فلسطینی عوام کو ان کا حق دیے بغیر امن نہیں دے سکتے ہیں۔آپ وہاں امن قائم نہیں کرسکتے جہاں عوام کی خواہشات اور امنگوں کو جبری دبا دیا جائے۔اگر مغرب انسانی حقوق کے ایشو کو مکمل طور پر نظرانداز کرتا اور اپنے اقتصادی مفاد کے لیے مطلق العنان حکومتوں کو مضبوط کرتا ہے تو پھر امن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ ان تمام سازشی کھیلوں کو فوری طور پر بند کرنا ہوگا۔دوسری صورت میں مغرب دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذریعے اس کا خمیازہ بھگتے گا۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ دہشت گردی ان کی ناانصافیوں سے ہی پروان چڑھے گی کیونکہ جن لوگوں کے پاس کوئی قانونی راستہ نہیں بچے گا تو وہ پھر دہشت گردی کے ذریعے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ مغرب کو ہمارے ساتھ برابری کی بنیاد پر معاملہ کرنا چاہیے۔ہمیں دوست چاہئیں، آقا نہیں۔ ('العربیۃ نیوز'میں شائع ہونے والی خبر کا متن ... پیر،۱۱؍اگست ۲۰۱۴ء)