کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 97
اسپتالوں میں بیماروں اور ضعیفوں کو مار دیا اور رمضان المبارک کی مقدس راتوں کے دوران عبادت کرنے والوں کو تہس نہس کردیا ہے، اُن کے حُلیے بگاڑ دیے ہیں۔ یہ جنگ نہیں تھی۔ یہ ایک قتل عام تھا جس کو امریکا میں میڈیا نے مہمیز دی۔ ایسا میڈیا جو ننگے ہوکر تعصّب کا مظاہرہ کررہا تھا،اس نے بالواسطہ طور پر حملوں کو نظر انداز کرکے اور ان کو نہ دکھا کر اُن کی حوصلہ افزائی کی ہے اور ہسٹریائی کیفیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ میڈیا اس وقت اپنی غیراخلاقی پن کی حدوں کو چھورہا تھا جب اس نے براہِ راست نشر کیے جانے والے پروگراموں کو بھی سنسر کرنا شروع کر دیا۔ ماضی میں موقر سمجھے جانے والے ادارے سی سپین نے بھی ایسے ہی کیا۔نسل کشی کے مخالف ماہرین کو نشریات میں بلانے سے گریز کیا گیا یا اُن کو بولنے کا وقت ہی نہیں دیا گیا۔ لیکن لاطینی امریکا کے ممالک اُٹھ کھڑے ہوئے اور وہ فلسطینیوں کے ہولوکاسٹ کے خلاف بولے ہیں حالانکہ وہ خود امریکا کی خارجہ پالیسی کا شکار رہے ہیں مگر کسی یورپی یا مغربی لیڈر کو چیخنے،چلانے کی توفیق نہیں ہوئی ہے۔ امریکی حکومت اور اس کے قانون سازوں کا میڈیا سے اتنا تعلق رہا ہے کہ وہ اس کے ذریعے حماس سے یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ وہ اپنی جارحیت کو روکے۔ اس معاملے میں کینیڈا سب سے بڑا مجرم بن کر سامنے آیا ہے اور میں عرب کاروباری حضرات سے یہ کہنا چاہوں گا کہ وہ کسی کینیڈین وفد سے ہر قسم کا میل ملاقات بند کردیں بالکل ایسے جس طرح انھوں نے ماضی میں روس کے ساتھ کیا تھا۔ اس تحریک کا یورپی یونین کے رکن ممالک اور امریکا پر بھی اطلاق کیا جانا چاہیے اور امریکا تو سب سے زیادہ جارحیت پسند ثابت ہوا ہے۔ صدر اوباما نے اس دوران اسرائیل کے 'آئرن ڈوم پروگرام' کے لیے اضافی فنڈز کی منظوری دی ہے اور اسرائیل کے ہتھیاروں کے ذخیروں میں اضافے کے لیے لیزر گائِیڈڈ بموں اور راکٹوں کی بھاری کھیپ روانہ کی ہے۔ان یورپی ممالک اور امریکا کے نزدیک فلسطینیوں کی زندگیوں کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے۔ ان کے لیے ہم عرب محض ایک مارکیٹ ہیں، گیس