کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 9
دور حاضر میں ’دہشت گردی‘ کا مطلب یہ بنا دیا گیا ہے کہ ان (پر فریب) نعروں کا انکار کرکے ایک اللہ پر ایمان رکھنا۔دہشت گردی یہ ہے کہ اللہ کی شریعت کی حکمرانی قائم کرنا۔ دہشت گردی یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرنا جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے۔دہشت گردی یہ ہے کہ تم (کافروں کے نظاموں کے سامنے) ذلت کے ساتھ جھکنے، غلامی اور تابعداری سے انکار کردو۔ دہشت گردی یہ ہے کہ مسلمان آزاد، باعزت اور وقار کے ساتھ ایک مسلمان کی طرح زندگی بسر کرے۔ دہشت گردی یہ ہے کہ تم اپنے حقوق کا مطالبہ کرو اور اس سے دستبردار ہونا قبول نہ کرو۔
لیکن برما میں مسلمانوں کو قتل کرنا اور ان کے گھروں کو نذرِآتش کرنا دہشت گردی نہیں ہے۔فلپائن، انڈونیشیا اور کشمیر میں مسلمانوں کے جسموں کے ٹکڑے کرکے آنتیں نکالنا اور ان کے پیٹ چاک کرنا دہشت گردی نہیں ہے۔قفقاز میں مسلمانوں کو مارنا اور بے گھر کرنا دہشت گردی نہیں ہے۔بوسنیا اور ہر زیگوینا میں مسلمانوں کی اجتماعی قبریں بنانا اور ان کے بچوں کو عیسائی بنانا دہشت گردی نہیں۔فلسطین میں مسلمانوں کے گھروں کو منہدم کرنا، ان کی زمینوں کو سلب کرنا، ان کی عزتوں کو لوٹنا اور ان کی حرمات کو پامال کرنا دہشت گردی نہیں۔مصر میں مساجد کو جلانا، مسلمانوں کے گھروں کو منہدم کرنا، پاکباز خواتین کی عزتیں لوٹنا اور سینا ودیگر علاقوں میں مجاہدین کا قلع قمع کرنا دہشت گردی نہیں۔مشرقی ترکستان اور ایران میں مسلمانوں پر بدترین تشدد کرنا، اُنہیں (زمین میں) دھنسانا، اُنہیں ذلیل ورسوا کرکے انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا دہشت گردی نہیں ہے۔ہر جگہ پر جیلوں کو مسلمانوں سے بھرنا دہشت گردی نہیں ہے۔فرانس اور تیونس وغیرہ میں پاکبازی کے خلاف جنگ برپا کرنا اور حجاب سے روکنا، فحاشی، بدکاری اور زنا کو پھیلانا دہشت گردی نہیں ہے۔ربّ العزت کو برا بھلا کہنا، دین کو گالی دینا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اُڑانا دہشت گردی نہیں ہے۔وسطی افریقہ میں مسلمانوں کو ذبح کرنا اور بھیڑ بکریوں کی طرح اُن کے گلے کاٹنا دہشت گردی نہیں ہے۔ ان سارے (مظالم) پر نہ کوئی رونے والا اور نہ ہی کوئی مذمت کرنے والا ہے۔ یہ سب کچھ دہشت گردی نہیں ہے بلکہ یہ تو