کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 7
’اس میں عراقی فوج کا کچھ حصہ بھی شامل ہے، صدام حسین کے دور کے بعث پارٹی کے ارکان بھی اور کئی جہادی بھی۔ الغرض ہر وہ شخص باہر آ گیا ہے جس کو (نوری المالکی نے) دبایا ہوا تھا۔ داعش کی جدوجہد دراصل شمال مغربی عراق کی غریب آبادیوں کی محرومیوں اور عراقی حکومت کی بدعنوانی اور بُری پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔‘‘ [1] ماضی میں یہ تنظیم امریکی وبرطانوی اَفواج کے خلاف سرگرم رہی ہے، اسی طرح عراق کی مسلح افواج، عراقی پولیس، شامی مسلّح افواج، مختلف شیعہ ملیشیا، ایرانی پاسدارانِ انقلاب، لبنان کی شیعہ تنظیم ’حزب اللّٰہ‘ سے اس کی کافی جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔داعش نے ۲۰۱۳ءمیں بیروت میں ایرانی سفارتخانے کو بم دھماکے سے تباہ کردیا تھا۔(اس کی بعض پیچیدہ کاروائیوں کی تفصیل آگے صفحہ نمبر ۲۴پر ملاحظہ کریں) داعش نے یکم رمضان المبارک ۱۴۳۵ھ بمطابق ۲۹؍ جون۲۰۱۴ء کو خلافتِ اسلامیہ کا اعلان کرتے ہوئے، اپنا نام ’دولتِ اسلامیہ‘ یا ’ دولتِ خلافت اسلامیہ‘ تک محدود کرلیا ہے، اور اس سے عراق وشام کے لفظ کو خارج کرکے، دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کو پہنچنے کادعویٰ کیا ہے۔شام کے ضلح حلب سے عراقی ضلع دیالی تک اس کی حدود پھیلی ہوئی ہیں۔ عراق وشام کا ایک تہائی علاقہ اس کے کنٹرول میں ہے۔ ۶ جولائی کو ’دولتِ خلافتِ اسلامیہ‘نے اپنا پاسپورٹ اور کرنسی وغیرہ شائع کرکے، اپنے زیر قبضہ علاقوں میں اس کا اجرا کردیا۔۶ رمضان المبارک ۱۴۳۵ھ کو موصل میں امیر نور الدین زنگی کے والد کی قائم کردہ مشہور مسجد جامع نوری الکبیر میں خطبہ جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے دولتِ اسلامی کے نامزد خلیفہ ابوبکر ابراہیم بن عواد قریشی بغدادی نے کہا : ’’لوگو! اللہ تبارک وتعالیٰ کا دین اللہ کی شریعت کو نافذ کرنے، اور اس کے مطابق فیصلے کرنے اور حدود کو قائم کئے بغیر قائم نہیں ہو سکتا اوروہ مقصد پورا نہیں ہوسکتاجس کے لئے اُس نے ہمیں پیدا کیا۔اور یہ سب کچھ کرنے کے لیے طاقت اورحکومت ضروری ہیں۔ پس دین کو قائم کرنے والا اُصول ہے کہ’’کتاب(قرآنِ کریم) رہنمائی کرتی
[1] http://www.bbc.co.uk/urdu/2014/06/140623_what constitutes-isis-sq.shtml