کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 6
تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئےسنی عناصر کو کچلنا شروع کردیا اور شیعہ برادری کو اپنی حمایت کے لیے اپنے پیچھے اکٹھا کرلیا،اس لیے داعش کی جدوجہد میں سنّی رجحان غالب ہوگیا۔اس بنا پر داعش کو امریکہ اور اس کے حواریوں کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف جدوجہد کرنے والی سنی جہادی تنظیم قرار دیا جاسکتا ہے۔(تاہم اس تعارف میں بہت سی تفصیلات اور تحفظات آگے صفحہ نمبر ۲۳پر ملاحظہ کیے جائیں)
۲۔ اس کا دوسرا اہم حصّہ صدام حسین کی حکومت کی تجربہ کار فوجی قیادت اور انتظامی صلاحیت رکھنے والے افسران پر مشتمل ہے جو ظاہر ہے کہ امریکہ اور اس کی کٹھ پتلی نوری المالکی کی حکومت کے خاتمے کے لیے سرگرم ہے۔سابقہ عراقی حکومت کی یہ اسٹیبلشمنٹ ظاہرہے کہ بعث پارٹی کے عرب قوم پرستانہ خیالات سے متاثر ہے۔داعش نے بعض شہروں پر اپنا قبضہ راتوں رات قائم کیا ہے، اور ابھی تک اس کے اختیار میں آنے والا کوئی بھی شہردیگر فورسز واپس نہیں لے سکیں۔ فوجی حکمتِ عملی اور شہری انتظام کی یہ صلاحیت داعش کے اسی عنصر کے تجربے کی مرہونِ منت ہے۔
۳۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی سے آنے والے غیو ر نوجوان اورکوہ قاف، افغانستان اور یمن سے آنے والے مجاہدین بھی اس کی قوت ہیں۔ یہ تنظیم عالمی قوتوں کے خلاف ٹھوس مزاحمت کی خواہش رکھنے والوں میں کافی مقبول ہے۔ مغربی ممالک سے آنے والے یورپی نژاد مسلمانوں کی بنا پر برطانیہ، فرانس حکومتوں میں بڑی بے چینی پائی جاتی ہے اور یورپی حکومتیں اپنے اپنے زیر اثر مسلم قائدین سے اس کے خلاف بیان بازی کراچکی ہیں۔
۴۔ عراق میں قائم امریکی کٹھ پتلی مالکی حکومت کئی برسوں سے امن وامان اور شہری سہولیات بحال نہ کرسکی ہے، بدامنی اور ظلم وزیادتی کا عراق میں دور دورہ ہے۔ اس بنا پر عراق کے مظلوم اور مفلوک الحال شہری بھی اس تنظیم کی قوت ہیں اور یہ ان پر ہونیوالی زیادتیوں کا رد ّعمل ہے،بالخصوص مقامی قبائل اور جنگجووں کی حمایت اسے حاصل ہے۔عراقی صوبے ’الانبار‘ کے طاقتور قبیلے’الدلیام‘ کے سربراہ شیخ علی حاتم سلیمان کے داعش کے ساتھ عملی جدوجہد کے بیانات اور ویڈیوز عالمی میڈیا پر آچکے ہیں۔برطانوی اخبار ’ڈیلی ٹیلی گراف‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ’اسلامک آرمی آف عراق‘ کے رہنما شیخ احمد الدباش کا کہنا تھا کہ
’’عراق کے تمام سنّی گروپ اب وزیرِاعظم نوری المالکی کے خلاف اکٹھے ہوگئے ہیں۔