کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 5
والشام جس كا مخفف عربی میں داعش اور انگریزی میں ہے، عراق میں سنّی جہادیوں کی ایک ۸،۱۰ سال قدیم جماعت ہے جو صدام حکومت کے خاتمے کے بعد وجود میں آئی۔ اس کے پہلے رہنما ابو عمر بغدادی تھے، جو ۱۹؍ اپریل ۲۰۱۰ء کو امریکی فوجوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے، اس کے موجودہ قائد ابوبکر ابراہیم بن عواد بدری حسینی قریشی بغدادی ہیں جو علم وفضل سے بڑھ کر ایک مردِ ميدان ہیں۔ اس تنظیم نے شام کے ضلع جات : حلب،رِقہ، ریف اور حمص وحماۃ و دمشق کے بعض حصوں کے علاوہ عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل، سنّی اکثریت کے چھ ضلع جات: شمال مغربی ضلع صلاح الدین (مرکز تکریت)، ضلع نینوا (مرکز موصل)،مغربی عراق کے ضلع انبار(مرکز رمادی)اورشہروں فلوجہ، عانہ، بیجی، قائم، رطبہ، تل عفر،دیالی وغیرہ پر اپنا قبضہ مستحکم کرلیا ہے۔ عراق کے سب سے بڑے موصل ڈیم اور آئل ریفارئنریز، حمص کے نیچرل گیس سنٹر کے علاوہ بغداد کے نواحی قصبہ جات تک اس کی قوت پھیل چکی ہے۔
داعش ماضی میں القاعدہ سے ہی علیحدہ ہونے والی تنظیم ہے۔ شام میں کامیاب عسکری جدوجہد کرنے والی جبهة النُّصرةنے بہت سے شہروں پر قبضہ کرلیا تو دونوں میں جنگیں ہوئیں،اور آخر کار اتفاق کی صورت میں دونوں کا نام الدولة الاسلامیة في العراق سے والشام تک وسیع كرديا گيا۔ داعش کی حالیہ پیش قدمی جون کے آغاز میں سامنے آئی ہے، جسے اپنی قوت کے لحاظ سے مغربی میڈیا القاعدہ سے زیادہ مؤثر قرار دے رہا ہے۔ اس تنظیم کو درج ذیل عناصر پر مشتمل قرار دیا جاسکتا ہے :
۱۔ بنیادی طور پر یہ عراق میں امریکی تسلط کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم ہے جو عراق میں امریکی جارحیت کا شکار ہونے والی صدام حکومت کے خاتمے کے بعد وجود میں آئی۔سلفی پس منظر سے وجود میں آنے والی القاعدہ سے ماضی میں منسلک ہونے کے ناطے عالمی جہادی نیٹ ورک اور شام میں جاری مزاحمت سے اس کا قریبی تعلق ہے، اس وقت القاعدہ سے بھی منحرف ہوکر’داعش‘ اکیلے پرواز کررہی ہے۔اس تنظیم کی قیادت اور مرکزی کنٹرول بنیادی طور پر یہی عنصر کررہا ہے۔چونکہ امریکہ نے عراق میں صدام حسین کی سنی سیکولر حکومت کا خاتمہ کرکے، وہاں اقتدار اپنے کٹھ پتلی حکمران وزیر اعظم نوری المالکی کے حوالے کردیا تھا جس نے اپنے دورِحکومت میں شیعہ نوازی اور بدترین