کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 32
عرب کے قریب ہے، یا مستقبل قریب میں اگر طالبان کو افغانستان میں حکومت مل جائے،جس کے روشن امکانات ہیں تو اُن سے بھی ان کی فکری قربتیں ہوسکتی ہیں۔ داعش کے بارے میں اکثر حلقوں میں جو اعترا ض کیا جاتا ہے، وہ خارجیت کا ہےجس کی تفصیل پیچھے گزرچکی ہے۔داعش جیسی جہادی تحریکوں کے لیے تشدد وانتہاپسندی سے گریز ایک بڑا ہی اہم مسئلہ ہے۔ دین کے فروغ کے ساتھ ہی، ظواہر پرشدت اور مقاصد ومصالح شرع کی پروا نہ کرنے کا مسئلہ ماضی میں بھی پیش آتا رہاہے۔ خیرالقرون، خلافتِ راشدہ میں بھی اسلام کو پہلا چیلنج اسی فتنہ خارجیت سے پیش آیا تھا جو دین داری میں غلو کا نتیجہ تھا، موجودہ سعودی حکومت کے لیے بھی القاعدہ اور جہادی نوجوانوں کے رجحانات ہی اہم ترین مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔اس غلو وتشدد کو علمی رسوخ، تقویٰ، عمل اور تحمل سے ہی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ یہ غلو جہادی میدانوں کی تیز تر حرکت کی بجائے ٹھنڈے دل اور تحمل سے مسائل کے حل کی طرف متوجہ ہونے سے ہی ختم ہوسکتاہے۔ داعش کے قائد ین کے بیانات ابھی محض دعوے ہی ہیں، میدانِ عمل میں ان کو اختیار کرکے، جب عملاً ان پر کاربند ہوں گے، تب ہی اُن کی پختگی کا علم ہوگا۔ آج کی پیچیدہ عالمی سیاست میں حکومتیں عالمی دباؤ کے سامنے مجبور ہوجاتی ہیں اور بیشتر دعوے خواہشات سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔کفر کے اس عالمی دباؤ کو گہری تدبیر اور مشترکہ قوت کے ساتھ ہی ختم کیا جاسکتاہے۔ ۵۔ حرمین کی بجائے اسرائیل کی طرف: خارجیت پرور رجحانات کے تناظر میں ۴؍اگست کے اخبارات میں روسی میڈیا اور برطانوی اخبار ’ٹائمز ‘کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ ’’داعش نے سعودی عرب بالخصوص مکہ مکرمہ کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے، ان دھمکیوں سے گھبر ا کر سعودی حکومت نے اپنی ۵۰۰ میل لمبی عراقی سرحد پر ۳۰ ہزار فوج متعین کردی ہے۔ کہا جاتاہے کہ اس فوج کا بیشتر حصہ پاکستان او رمصر کی حکومتوں سے طلب کیا گیا ہے۔ اس سال سعودی عرب کے دفاعی اخراجات ۳۵ بلین پونڈ تک پہنچ گئے ہیں جو برطانیہ سے بھی زیادہ ہیں۔‘‘ مشرقِ وسطیٰ بالخصوص عراق وشام میں جاری یہ جنگ سعودی عرب کے ہمسائیگی میں دو دہائیوں سے جاری ہے۔ اور جنگ میں میدانِ جنگ سے زیادہ اہمیت درست خبروں کی ہوتی