کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 31
کی حکومت ایک نظریاتی حکومت ہے، اس لیے اپنی نظریاتی بنیادوں کو مستحکم کرکے اُنہیں ہرصورت واضح کرنا ہوگا۔ اس کے قائدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان نظریات کی درجہ بند ی کریں، جن پر کوئی مفاہمت نہیں ہوسکتی۔ اور جن نظریات میں گنجائش ہے اور اُنہیں گوارا کیا جاسکتا ہو، ان میں سہولت اور تدریج کا رویہ اختیار کریں۔اکیسویں صدی خالص اسلام کے لیے بہت اجنبی ہے، اس دنیا میں داعش کو حلیف قوتوں اور معاہدوں کا بھی راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ داعش کا موقف ہے کہ وہ کفر کی عالمی غاصب برادری سے مفاہمت اور اُن سے ماتحتی پر مبنی معاہدات نہ کرے گی،اس صورت میں اہل اسلام میں اپنی جڑیں مضبوط کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
۴۔ سعودی عرب اور داعش کی نظریاتی وحدتیں: داعش کے نظریات کا مطالعہ کریں تو ان میں عقیدہ توحیدکا فروغ، شرک وبدعات کی بیخ کنی، وضعی قانون کی بجائے اللہ کی شریعت پر فیصلے کرنا، جمہوریت، انسانی حقوق، سیکولرزم،نام نہاد امن، وطنیت اور آزادی رائے جیسے مغربی کھوکھلے نعروں کی مذمت کرنا وغیرہ سرفہرست ہیں۔ عملی طور پر اُنہوں نے شعائر اسلام کے فروغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے قیام کو ترجیح دی ہے۔ان کے خطبات کا تجزیہ کیا جائے تو وہاں عرب قوم پرستی، عراقیت نواز ی کے بجائے ملتِ اسلام کی بات کرکے وطنیت کی عملاً مذمت کی گئی ہے۔ یہاں مسلم ممالک کے حکمرانوں کو ایجنٹ قرار دے کر، کفر کو ملتِ اسلام کے خزانوں کو لوٹنے والا اور دنیا کو ان کے خلاف ظلم وتشدد کا مجرم بتایا گیا ہے۔اسلامی وسائل اور ملتِ اسلام کے مفادات کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔
داعش تاریخی لحاظ سے سلفی مکتبِ فکر سے نکلا ہوا گروہ ہے۔ اس بنا پر سعودی عرب کی حکومت وعوام او ران میں بہت سی مشترک قدریں پائی جاتی ہیں۔ بالخصوص عقیدہ توحید کی بنا پر معاشرے کی اصلاح اور اس سے مظاہر شرک وبدعت کا خاتمہ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا قیام، شرعی عدالتوں کا قیام، سیکولرزم، جمہوریت وانسانی حقوق کے مغربی نعروں کی مذمت جیسے کئی چیزیں ان میں قدرِ مشترک ہیں۔ اور دونوں میں وجوہاتِ اختلاف کو دیکھیں تو خلافت اور ملوکیت،عالمی کفر سے معاندت یا مفاہمت بھرے تعلقات، ملتِ اسلامیہ کے مفادات کی فکر اور اس سے مبیّنہ غفلت وغیرہ کو پیش کیا جاسکتا ہے اور یہی جہادی تنظیموں کے سعودی حکومت پر اعتراضات ہیں۔ اس لحاظ سے دنیا کی کسی بھی ریاست سے بڑھ کر داعش نظریاتی طور پر سعودی