کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 30
تقاضے بھی بڑے بلند ہیں۔ ہر مسلمان خلافت کا نام سن کر فوراً خلافتِ راشدہ کا تصور اور اسلام کا فلاحی کردار ذہن میں لے آتا ہے۔ فلاح اسلامی کو پیش نظر رکھتے ہوئے، داعش کو معاشرے کی سہولت اور نظم وضبط، امن وامان کے قیام سے اپنی ترجیحات کا آغاز کرنا چاہیے۔ بڑا مبارک ہے کہ اُنہوں نے قیمتوں کو نصف کرنے، شہری نظام کی بحالی پر فوری توجہ دی ہے۔ انہیں پابندیوں اور سختیوں کو، سہولتوں کے پہلو بہ پہلو بلکہ ایک قدم پیچھے چلانا چاہیے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت کو غریبوں کے کام آنے اورمسافروں، محروموں کی نگہداشت کرنے سے تقویت بخشی۔ مدینہ میں مؤاخات اور امن وامان کے قیام سے آپ نے اپنی مبارک سیاست کا آغاز کیا۔ آپ نظام عبادات اور نظام عدل وانصاف کو بھی بڑی حکمت ودانائی سے ساتھ ساتھ لے کر چلے۔ پوری دنیا کے میڈیا کی نظریں اُن پرہیں اور ملتِ اسلامیہ کے لیے وہ اُمید کی ایک روشن کرن بن سکتے ہیں۔ ۳۔ افتراق سے گریز اور حلیفوں کی تلاش: داعش کی قوت مسلم اتحاد واتفاق کی قوت ہے جس کا مرکز قرآن وسنت ہے۔ دولتِ خلافت اسلامیہ جہادی نظریات کی علم بردار ہے۔اور اُسے اپنے اس مرکزی نظریے پر کاربند رہنا چاہیے کہ وہ ملتِ کفر کی مسلم ممالک پر جارحیت اور ان پر غاصبانہ قبضے کے خلاف ایک توانا آواز بنی رہے۔جو ملتِ کفر کا حاشیہ نشین بنے، اور ان کے غصب کو طول دے، چاہے وہ کرزئی کی شکل میں ہو، یا نوری المالکی کی کٹھ پتلی حکومتوں کی صورت میں، داعش کی صورت میں اُن کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ ملتِ محمدیہ پر ہونے والے مظالم میں وہ اپنے بھائیوں کی ہم نوا اور مؤید ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی صورت میں ملتِ اسلام کو متحد رہنے کا ایک عظیم آلہ عنایت کیا ہے او رتاریخ شاہد ہے کہ جب تک جہاد مسلمانوں میں جاری رہا، باہمی آویزشیں سر نہ اُٹھاسکیں۔داعش کو چاہیے کہ مسلمانوں میں باہمی اختلاف سے ہر صورت گریز کرے۔ماضی میں افغانستان میں طالبان کی امارت نے کتاب وسنت کی بجائے، حنفیت کے فروغ کوترجیح دی جس کے نتیجے میں افغانستان کے سلفی حلقے کو کنٹر ونورستان میں ان کی طرف سے تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس چیز نے طالبان کی مقبولیت کو ان کے خیرخواہوں میں بہت نقصان پہنچایا۔ داعش کو بھی کتاب وسنت میں موجود نظریات پر کاربند ہوتے ہوئے ان فرقہ بندیوں سے گریز کرنا ہوگا، وگرنہ اہل اسلام کے باہمی اختلافات کی بے برکتی ان کی قوت کو منتشر کردے گی۔ داعش