کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 29
قتل ناقابل معافی ہے۔ تاہم آخر اس منتشر ومتحارب جہاد سے آخر کار اللہ تعالیٰ نے خیر نکالی اور طالبان کے نام سے ایک حکومت قائم ہوگئی۔ مذکورہ بالا اُمور بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی اصلاح جتنی جلد ہوجائے گی، اتنا ہی اسلام اور مسلمانوں کے لیے بہتر ہوگا۔تاہم داعش کو انتہاپسندانہ رویے کو لازماً ترک کرنا ہوگا، اگر وہ مسلمانوں کی طرف ہی اپنی بندوقوں کا رخ کرلیں گے اور تکفیر وارتداد کی زبان بولیں گے تو پھر اس جہاد کو فساد سمجھنے میں کوئی اَمر مانع نہ ہوگا اور یہ ایک عظیم فتنہ ہوگا۔ داعش کے باضابطہ ترجمان شیخ عدنانی کا پیچھے بیان گزر چکاہے کہ خارجیت کے سلسلے میں ناقدین کو ان کے زیر حکومت شہروں کے ماحول کا مشاہدہ کرنا چاہیے۔اگر وہاں وہ خارجیت کو پاتے ہیں تو یہ الزام درست، بصورتِ دیگرداعش کا حال ہی اس کا اصل موقف ہے۔
داعش کو مزید درج ذیل اُمور کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہیے:
۱۔ تعلیم وتربیت کی طرف توجہ: داعش مختلف الخیال لوگوں کا مجموعہ ہے جنہیں مختلف ضرورتوں اور ترغیبات نے مجتمع کردیا ہے۔ دراصل یہ اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ ہے جس نے اس قدر وسیع الجہت عناصر کو متحد ہوکر جہادکےنظریے تلے مشترکہ جدوجہد کی توفیق دی۔ ان مختلف الخیال لوگوں کو پختہ نظریہ اورعقیدہ ہی دائمی طور پر متحد کرسکتا ہے۔ ان کا اللہ تعالیٰ سے گہرا تعلق اور خلوص وللہیت ہی اُنہیں بڑے عظیم چیلنجوں سے عہدہ برا کرسکتی ہے۔ اس لیے داعش کو فوری طور پر تعلیم وتعلّم اور عبادت وعمل کی طرف متوجہ ہونا ہوگا۔ مسلمانوں میں مرکز ومحور صرف کتاب وسنت ہی ہیں، کتاب وسنت کی تعلیم ودعوت کو اس قدر بڑے پیمانے اور قوت سے پھیلایاجائے کہ دیگر شخصی آرا اور رجحانات کو پنپنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔ دعوت وتعلیم کو فرقہ وارانہ رجحانات اور فقہی نکتہ رسیوں سے نکال کر، شعائر اور مسلماتِ اسلام کے فروغ اور ان پر زیادہ سے زیاہ عمل کی طرف لانا چاہیے۔ اگر نظریہ وعقیدہ واضح نہ ہو یا بدعملی کی آفت سوار ہو تو ہر دوصورت میں داعش کی وقت منتشر ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔افراد کی اصلاح ہی معاشرے کی حقیقی اصلاح پر منتج ہوتی ہے۔ اسلام نرے حکومتی جبری اقدامات کے بجائے ترغیب وآمادگی کے ذریعے نافذہوتا ہے جو زمینوں کی بجائے دلوں پر حکومت کا داعی ہے اور یہ تمام کام تعلیم وتربیت کے بغیر ممکن نہیں۔
۲۔ پابندیوں کی بجائے سہولتوں سے آغاز: خلافت کا نعرہ بڑا عظیم اور مبارک ہے اور اس کے