کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 28
حکومت پر عدم اطمینان کے بعد، داعش کو اوپر کی سطح پر اختیار سونپنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ داعش کو ملنے والی کامیابی اس کے زمینی وجود سے بہت بڑی ہے اور مقابل فوجیوں نے مقابلہ کی بجائے وردیاں چھوڑ کر بھاگنے اور عوا م میں گھل مل جانے کو ترجیح دی۔شام میں سنی مزاحمت کامیاب ہونے کے دنوں میں داعش کو شام میں راستہ دیا گیا تھا کہ وہ ان جہادی گروہوں پر ہی حملے کرکے، جہاد کی قوت کو کمزور کرے۔دولتِ خلافت اسلامیہ کی صورت میں دنیا بھر کے جہادیوں کو جمع کرکے، ان کے خلاف امریکی بمباری ان کی اجتماعی ہلاکت کی تدبیر ہےجس کے بعد امریکہ کوعراق پر براہِ راست قبضہ رکھنے کا جواز حاصل ہوجائے گا۔ کہا جاتاہے کہ داعش کا مقصد سنی سلفی طاقت کو منقسم کرنا اور باہم لڑانا ہے، اس لئے داعش کا اگلا ہدف لبنان کی سنّی حریری حکومت ہے جس کے دفاع کے لیے سعودی عرب نے ایک اَرب ڈالر کی امداد ہفتہ قبل جاری کی ہےاور داعش عنقریب سعودی حکومت کو بھی نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔داعش کبھی اسرائیل کی طرف پیش قدمی نہیں کرے گی بلکہ اس کانشانہ مسلمان ہی ہوں گے اور یہی خوارج کی علامت ہے۔ ۴۔ اگر یہی معیار مان دے لیا جائے کہ جو بھی گروہ بعض علاقوں پر قبضہ حاصل کرلے اور وہاں خلافت کا اعلان کرکے، باقی جہادی گروہوں او رعوام کو مرتد بنا کر قتل کرنا شروع کردے تو پھر اس قتل وغارت او رانتشار کا سلسلہ کہاں تک جائے گا۔اس کی بجائے باہمی مشاورت اور اتفاقِ رائے سے اس قدر عظیم امور انجام دیے جائیں تبھی خلافت صحیح معنوں میں قائم ہوسکتی ہے۔ دولت خلافتِ اسلامیہ کے لیے قابل توجہ اُمور داعش پر کئے جانے والے اعتراضات کا خلاصہ وہ ہے جو اوپر پیش کردیا گیا۔ دراصل مزاحمت اور دفاع میں جب کئی ایک گروہ کارفرما ہوں، اور ان میں ہر ایک اپنے حصے کی جدوجہد کررہا ہو تو اس میں اتباع کے باہمی نظام کا قیام اور ترجیحات کا متفقہ تعین ایک بڑا مشکل امر ہے۔ ماضی میں یہی باتیں افغانی طالبان کے بارے میں بھی سامنے آئیں،اور اُنہو ں نے دیگر گروہوں حتی کہ کنٹر ونورستان کے سلفیوں کے خلاف بھی جہاد کیا جس پر اُنہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور آج تک اہل حدیث ان کے اس جرم کو معاف نہیں کرسکے کیونکہ ایک مسلمان کا بھی ناورا