کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 27
مجہول اور غیردستیاب ہے، ہم اظہارِ اعتماد کے لیے کیسے اس کے خیالات کا جائزہ لیں؟ اس عدم دستیابی کے الزام کے خاتمےکے لیے ابو بکر بغدادی نے ۶ رمضان کو موصل میں خطبہ جمعہ میں اپنے آپ کو عوام الناس میں ظاہر کیا۔ لیکن یہ اعتراض تاحال باقی ہے کیونکہ خلیفہ کی بیعت میں عامۃ المسلمین کا اعتماد بھی ایک شرط ہےاور اعتماد کے لیے معرفت ضروری ہے۔خلیفہ پر یہ اعتراض بھی ہوا کہ اسلامی خلافت کے لیے قوت کے ساتھ علم وفضل بھی درکار ہیں،﴿زَادَهٗ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ﴾ کا یہی تقاضا ہے۔ اس کے جواب میں اچانک ۱۰؍اگست کو میڈیا پر یہ آنا شروع ہوگیا کہ جناب خلیفہ محترم علومِ شریعہ میں پی ایچ ڈی کے سند یافتہ ہیں۔ کہا جاتاہے کہ دولت کے زیر اثر شہروں میں ایسے لوگوں اور علما کو قتل کردیا جاتا ہے جو خلیفہ کی بیعت نہ کریں۔ یہ قتل شرعی دلیل کا متقاضی ہے کیونکہ خلیفہ کی بیعت سے تاخیراس کے قتل کو واجب نہیں کرتی، جیساکہ دورصحابہ میں اس کی مثالیں موجودہیں۔ داعش پر بہت بڑا اعتراض دیگر جہادی تحریکوں سے قتل وغارت گری کا بھی ہے۔ ماضی میں جبهة النُّصرةسے ان کی لڑائی مسلمہ حقیقت ہے۔ان کے اسی رویے کی بنا پر شامی اَفواج نے داعش کو شام میں داخلے کے لیے کھلا راستہ دیا، اور داعش نے دیگر غیر جہادی تنظیموں کی قیادت کو ہلاکت سے دوچار کیا۔ القاعدہ رہنما ڈاکٹر ایمن ظواہری نے اسی بنا پر داعش کو شام میں داخلہ سے روک دیا لیکن داعش نے ان کے حکم کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔سلفی علما، داعش سے شرعی عدالتوں کا مطالبہ کرتے اور ان قتلوں کے واضح اور نامزد ملزموں کے قصاص کا مطالبہ کرتے ہیں اور داعش کے خودساختہ نظام عدل پر شرعاً مطمئن نہیں ہیں۔جبهة النُّصرةاس وقت پھر داعش سے علیحدہ ہے، وہ نہ تو خلافت کی داعی ہے اور نہ تكفیر کی۔شیخ عرعور کے بقول ہم جاننا چاہتے ہیں کہ یہ رویے جو بکثرت داعش سے صادر ہورہے ہیں، ان کی قیادت کے نزدیک اس کا جواز کیا ہے؟ کیا وہ اس کی مذمت کرتے ہیں یا اصلاح کے لیے سرگرم ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ ان میں اکثر باتوں سے داعش نے رجوع کرلیاہے، تاہم ماضی کی کوتاہیوں کا مداوا کیا ہے اور کیا ضمانت ہے کہ دوبارہ ایسا نہ ہو؟
۳۔ داعش کی سیاسی تشکیل پر بھی بہت سے اعتراضات ہیں۔ کئی لوگ اسے ۱۹۹۷ء کے افغانی طالبان کی طرح امریکی چالبازی کا مظہر سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عراق کی موجودہ