کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 25
مطالبے کے باوجود کسی حکمران کو نہ تو اس کے تقاضوں سے عہدہ برا ہونے کی توفیق ہوتی ہے اور نہ مسلمانوں اور ان کے شعائر پر ہونے والے حملوں کے خلاف مزاحمت کا حوصلہ ملتا ہے۔نفاذِ شریعت، خلافت، مسلم مفادات اور اقلیتوں کا تحفظ اور اسلامی حمیت وغیرت کا احیا، دولتِ خلافت اسلامیہ کی تائید کے رجحانات ہیں۔یہ جہادی عناصر عرصہ دراز سے ایک خطہ ارضی کی تلاش میں ہیں جہاں وہ عملاً اسلام نافذ کرکے، اپنے اس موقف اور الزامات کو ثابت کردیں جو مسلم حکمرانوں پر لگائے جاتے ہیں۔ اندریں حالات داعش کو وسیع تر خطہ ارضی مل جانا، بڑی جہادی قوت کا اجتماع او ر دنیوی اموال ووسائل سے بھی مالا مال ہوجانا، بہت سے مسلمانوں کے لیے اُمید کی روشن کرن ہے۔
دولتِ اسلامیہ پر کئے جانے والے اعتراضات [Weaknesses]
۱۔ جولوگ دو دہائیوں کے جہادی منظر نامے سے آگاہ ہیں، بخوبی جانتے ہیں کہ القاعدہ کی شکل میں ہونے والی جہادی مزاحمت، ایک طرف دینی علوم اور اس کی تفقہ و بصیرت سے تہی دامن ہے۔ اس کی قیادت ان نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے جو ملت پر ہونے والے مظالم میں رنجیدہ ہیں اور اپنے حکام (سیاسی قیادت )کے ساتھ، علما ے کرام (دینی قیادت )سے بھی ناراض ہیں۔ القاعدہ اور اس کے شجرہ نسب سے تعلق رکھنے والی جہادی جماعتیں، اگرچہ سلفی پس منظر سے تاریخی تعلق رکھیں لیکن سلفی علما ان کے منہج واستدلال کی مذمت کرتے ہیں اور ان کےموقف کو شرعی تائید سے عاری قرار دیتے ہیں۔ القاعدہ اور داعش کی قیادت مظالم کفار کے دفاع سے غفلت یا عاجز ی ظاہر کرنے والے مسلم حکام پر کڑی تنقید کرتی اورردّعمل میں آکر مسلم حکام کو کفار، طاغوت اور مرتد قرار دیتی ہے۔اسی پر اکتفا نہیں بلکہ ان کی حمایت کرنے والے سرکاری افسران اور اَفواج کو بھی مرتدوطواغیت بنا کر مباح الدم سمجھتی ہے۔[1]ان سے اتفاق نہ کرنے والے پہلے تکفیر اورپھر تفجیر(بم دھماکوں) کا سامنا کرتے ہیں۔ اس بنا پر ایسی جہادی تحریکیں، جہادی کے بجائے فسادی رویے کی حامل بن کرمسلمانوں سے ہی جہاد شروع کردیتی ہیں۔ یہ لوگ علما کو مرجئہ
[1] داعش کے باضابطہ ترجمان ’دابق‘ میں ’طاغوت‘ اور ’مرتدین‘ کی مخصوص اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں اور پیچھے شیخ عدنانی کے خطاب میں ’مرجئہ‘ کی مذمت،القاعدہ کے روایتی موقف سے اتفاق ظاہر کرتی ہے۔