کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 24
تاآنکہ مصطفیٰ کمال اتاترک نے اسے غیروں کے ساتھ ملی بھگت کرکے خاتمے سے دوچارکردیا۔ موجودہ صورتحال بھی کوئی زیادہ پریشان کن نہیں، بلکہ آج اگرشام وعراق کے نقشے کو دیکھا جائے تو چالیس فیصد تک علاقہ داعش کے زیر حکومت آچکا ہے، اور باقی علاقوں میں ان کی نقل وحرکت اور بڑی قوت موجود ہے۔اس خلافت کا اصل جوہر شریعتِ الٰہیہ کا نفاذ، اور اسلام کے نظامِ سیاست’خلافت وامارت‘ کا قیام ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی عالمی خلافتوں کی طرح اس کا دائرہ عمل بھی وسیع ہوتا جائے گا۔ اس لیے دولت خلافت اسلامیہ کو اس وقت آگے بڑھنے سے پہلے اپنی بنیادوں کو پختہ کرنے اور حکومت کو مستحکم کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ’دولتِ خلافتِ اسلامیہ‘ کی تائید اور حمایت کےاسباب [Strengths] ۱۔سامراج کی ہزیمت:ملتِ اسلامیہ ایک طویل عرصہ سے ذلّت وپستی اور ہلاکت وبربریت کا سامنا کررہی ہے جس میں ۱۹۹۰ء کے بعد سے واضح اضافہ ہوچکا ہے۔ان سالوں میں مسلمانوں نے بےشمار ہلاکتوں، مظالم، جبر وتشدد، ظلم وستم، عصمت وآبرو کی قربانیوں، اوراسلام و شعائرِ اسلام کے خلاف ہرزہ سرائیوں کے زخم سہے ہیں۔ ان حالات میں کوئی بھی طاقت کفریہ استعمار کو براہِ راست چیلنج کرتی اور اس سلسلے میں معمولی کامیابی بھی دکھاتی ہے تو مظالم سے چور اُمتِ مسلمہ اس کی طرف لپکی چلی آتی ہے۔ ۲۔شیعی سازشوں کا جواب:مسلم وعرب دنیا میں شیعہ مظالم ایک کھلی حقیقت بنتے جارہے ہیں۔ شیعہ کے انحرافی نظریات اور سازشی اقدامات جسے ایرانی انقلاب نے مہمیز دی ہے، کا دفاع کرنا بھی اہل السنّہ کی دلی خواہش ہے۔ یہ وقت اُمتِ مسلمہ میں اتحاد کا ہے، اور جو اس اتحاد کو پارہ پارہ کرتا ہے، ملت کا اجتماعی شعور اس سے نفرت کرتا ہے۔ایران اسی ملی شعور کے استحصال کے لیے وحدتِ اسلامی کا نعرہ اور اسرائیل مخالف جذبات کو کیش کراتا ہے لیکن اس کا اندرونی چہرہ اس سے بالکل مختلف ہے۔داعش کا ظاہری پہلو بھی شیعیت اور سامراجیت کے خلاف مزاحمت کا ہے،یہ چیز ان کی حمایت کا باعث ہے۔ ۳۔ اعلانِ خلافت اور اس کے زمینی امکانات:مسلم حکمرانوں کی مفاد پرستی اور مغربی نظریات واہداف کی آبیاری ان سالوں میں واضح ہوچکی ہے۔ نفاذ شریعت کے دیرینہ