کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 23
نہیں۔مختلف حکومتوں کے زیر نگرانی چلنے والے ابلاغی ادارے اُن کے سرکاری مفادات کے زیر اثر خبروں کو عوام میں فلوٹ کرتے ہیں۔مسلم یا ملی میڈیا جو جسد ملی کالازمہ اور اوّلین تقاضا ہے، اس کا کوئی مصداق مسلم دنیا میں نہیں پایا جاتا۔ حکومتیں اس تصور سے ہی جان چراتی ہیں کہ اس طرح ان کے شہریوں کی نظر آفاقی ہوگی اور اُنہیں مسلم دنیا کے ساتھ مختلف معاملات میں شراکت کو پروان چڑھانا ہوگا۔ اسی کی قیمت یہ ہے کہ یہ مسلم حکمران، مغرب کے دریوزہ گر اور ان کے معاشی اداروں کے بھکاری بنے رہتے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمتی ذلت وہلاکت کا تن تنہاسامنا کرتا ہے۔ مسلمانوں پر ظلم وستم کا خاتمہ اور کلمۃ اللہ کی سربلندی احیاے خلافت کے بغیر ممکن نہیں۔ اور خلافت کا قیام شریعتِ مطہرہ کا بنیادی تقاضا ہے، اس فرض کو ترک کرنے کی بنا پر دنیا بھر کے مسلمان گناہ کے مرتکب ہیں۔بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدسے کسی مرکز امارت کے بغیر مسلمان کبھی نہیں رہے،اسلام تو مختصر سفر کے لیے بھی امیرکے تقرر کو لازمی قرار دیتا ہے۔کوئی تحریک اورمرکزاس عظیم مقصد کے لیے یکسو ہوکر کام نہیں کررہی، اندریں حالات دولتِ خلافت اسلامیہ کا اس عظیم ہدف کو لے کر آگے بڑھنا ایک مبارک مشن ا ور نیک مقصد ہے۔تاہم خلافت جتنا مقدس ومبارک نظریہ ہے، اس کا قیام اور اس کا تحفظ وبقا اس سے بھی زیادہ ذمہ داری اور اہمیت کا معاملہ ہے۔اسی احساسِ ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ماضی میں طالبان نے خلافت کی بجائے ’امارتِ اسلامیہ‘ تک اکتفا کرنے کو ترجیح دی تھی۔دولتِ خلافت اسلامیہ کا یہ قدم بہرحال قابل تحسین ہے کہ اُنہوں نے اپنے سیاسی ڈھانچے کے لیے مغرب سے کوئی نظام مستعار لینے کی بجائے، خالص اسلامی نظام اور اصطلاحات کی طرف پیش قدمی کی ہے،جب اُنہوں نے اعلان کرلیاہے تو اللہ اُنہیں اس کے تقاضے پورے کرنے کی بھی توفیق مرحمت فرمائے، اور اُن کو کامیابی وکامرانی سے نوازے۔ تاہم کیا یہ وہی شرعی خلافت ہے جس کی اطاعت اور اس کے سائے تلے چلے آنا ہر مسلمان پر فرض ہے، اس کا تعین قبل از وقت ہے اور علما کی باضابطہ رہنمائی اور وسیع تر فتویٰ کا محتاج ہے۔ خلافتِ اسلامیہ کا جب بھی آغاز ہوگا، ابتدائی طور پر تو کسی ایک چھوٹے خطے سے اس کا سلسلہ شروع ہوگا، جیساکہ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کا آغاز کس قدر مختصر طور پر ہوا، اور بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ یہ خلافت چودہ صدیوں تک کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی،