کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 22
خارجی کی مخاصمت کی طرف بڑھتا نظر آتا ہے۔
گویا ادارہ خلافت موجود نہ ہونے کی بنا پر، اس بدترین مظلومیت کے دور میں بھی مسلمان ہی مسلمان کے خون کا پیاسا ہے اور قرآنی الفاظ میں باہمی اختلاف کی اذیت اور عذاب کا شکار ہے۔ اس المناک صورتحال کی وجہ ایک ہی ہے کہ خلافت کے مقدس تصورسے مسلمانوں نے صرفِ نظر کیا۔ خلافت کانام اوردعویٰ اگر اجنبی نظر آتا ہے تو اس کے احکام ونظریات سے واقفیت تو بالکل خال خال ہے۔ پوری مسلم دنیا جمہوریت، ملوکیت کے سحر اور آمریت کے دباؤ میں جکڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ہر مسلم ملک کو وطنیت کے بت نے اس طرح اپنے سحر میں لے رکھا ہےکہ وہ اپنے مفادسے بڑھ کر، ملت اسلامیہ کی بات کرنا بھی گناہ سمجھتا ہے۔ صورتحال یہاں تک پہنچی ہے کہ ’سب سے پہلے پاکستان‘ اور ’سب سے پہلے عرب‘ کے نعروں تلے، اپنے ہی مسلمان ہمسایہ بھائیوں کے خون سے ہاتھ رنگے جاتے اور اسے ایک مقدس جہاد باور کرایا جاتا ہے۔پھر یہ بھی ایک دن چڑھی حقیقت ہے کہ کفر اکیلا ملتِ اسلامیہ کاسامنا نہیں کررہا۔ امریکہ۵۲ ریاستوں پر مشتمل ایک مکمل براعظم ہونے کے باوجود،اپنے ہراقدام کے لیے اقوام متحدہ کی چھتری استعمال کرتا ہے، اسی پر اکتفا نہیں بلکہ یورپی یونین اور نیٹوجس میں بعض مسلم ممالک بھی شامل ہیں، کی افواج کو ساتھ لاتا ہے۔اسرائیل کے ظلم وستم کا دفاع اکیلا امریکہ نہیں، برطانیہ، فرانس اور جرمنی مشترکہ ووٹنگ سے کرتے ہیں۔اس کے باوجود ملت اسلامیہ کے حکمرانوں کو ہوش نہیں آتی۔ دینی قیادت کو فرقہ واریت کے تو آئے روز طعنے دیے جاتے ہیں، لیکن سیاسی قیادت اورحکمرانوں کی مفاد پرستانہ گروہ بندی اور ملی مفاد سے غفلت کو ہدفِ تنقید نہیں بنایا جاتاکہ یہ سب مسلمان حکمران کس طرح اپنے اپنے مفاد کے اسیر ہیں۔ کیونکہ وطنیت کے نظریے کا تقاضا یہی نیشنل ازم ہے جو دنیا کا سکہ رائج الوقت ہے۔ جمہوریت کی طاقت اورمحور یہی وطنیت کا نظریہ ہے جسے مسلم دنیا میں مسیحائی اور اُمید کی علامت سمجھاجاتا ہے۔
مسلم دنیا اگر خلافت کے نظریےسے عاری ہے تو وہ مسلم دنیا کو ایک جسد میں پرو دینے والے ذرائع ابلاغ سے بھی بالکل تہی دست ہے۔ مسلمانوں کی خبریں دشمنوں کے توسط سے ٹوٹی پھوٹی اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی چھلنیوں میں چھن کر، صہیونی خبررساں ایجنسیوں کے توسط سے ہم تک پہنچتی ہیں۔ ان میں سچ اور جھوٹ کی آمیزش کا کوئی پیمانہ ہمارے پاس