کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 21
تبصرہ و تجزیہ خلافتِ اسلامیہ اور ملّی میڈیا کی غیرموجودگی: دنیا بھر میں ساٹھ کے قریب مسلم ممالک اور غیرمسلم ملکوں میں بھاری مسلم اقلیتوں کی موجودگی، دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کے مسلمان ہونے، عظیم ترین دینی نظریہ وعمل اور آخری الٰہی دین اسلام کے وارث ہونے، بھرپور دنیوی وسائل سے مالا مال ہونے کی عظیم حقیقتوں کے ساتھ یہ ایک تلخ صورت حال ہے کہ اس تمام نظریاتی اور مذہبی تشخص کو باہم جوڑنے والا کوئی مرکزِخلافت موجود نہیں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی جانشینی کے فرض سے عہدہ برا ہوتا ہو۔ ممالک کے دفاتر اور سفارتیں تو ہیں لیکن دین اسلام کی عیسائی پوپ ویٹی کن کی طرح کی سفارت بھی نہیں۔دو دہائیوں سے مسلمانوں پر دنیا بھر میں بدترین مظالم تو ہورہے ہیں، ملتِ کفر ان کے خلاف متحد ومجتمع ہے لیکن مسلمان اس کے بالمقابل کسی نظم اجتماعی کی تشکیل کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ان سالوں میں اسلام اور اہل اسلام سے کفر براہِ راست نبرد آزما ہے، لیکن ان بدترین حالات میں بھی مسلمان ایک دوسرے سے متحد ہونےکے بجائے، کفر کی سازشوں پر عمل پیرا ہوکر ایک دوسرے کے خلاف ہی برسرپیکار ہیں۔ پاکستان میں جاری دہشت گردی کی جنگ ہو، افغانستان میں طالبان اور کرزئی حکومت کا مسئلہ ہو یا عراق میں نوری المالکی، شام میں بشار الاسد وغیرہ کی حکومتیں، مصر میں فوجی آمریت اور لیبیا میں جہادی مزاحمت، ہرجگہ مسلمان اپنے ہی ہم عقیدہ وہم نظریہ سے ظلم وتشدد سہہ رہے ہیں۔ مشرقِ وسطی کا المیہ دراصل کفر واسلام کا معرکہ ہے جہاں برطانیہ کے خفیہ معاہدے (سایکو پیکٹ) کے تحت خلافتِ عثمانیہ کے ماتحت علاقوں کو ریت پر لکیریں کھینچ کرمستقل ریاستیں قرار دیتے ہوئے، ان میں اسرائیل کا خنجر گھونپ دیا گیا تھا۔کفر واسلام کا یہ ازلی معرکہ، پہلے عرب اور صہیونیت کا معرکہ بنا۔ روس وامریکہ کی سرد جنگ کے دور میں اس کی یہی کیفیت رہی، لیکن ایرانی انقلاب کے بعدسے عالم عرب یا مشر قِ وسطیٰ کا یہ المیہ، آہستہ آہستہ شیعہ سنی مخاصمت کے محور کی طرف مرکوز ہوتا گیا۔ ایران عراق جنگ اور ایران سعودی عرب مخاصمت پروان چڑھی، پھر اب کچھ عرصہ سے یہ معرکہ اس سے بھی نیچے آتے ہوئے سعودی عرب اور مصر کی اصل جمہوری حکومت میں اختلاف کا روپ دھار رہا ہے۔ اور شیعہ سنی اختلاف کا ہوا دکھا کر، سلفی اور اخوانی نظریات کی آپس میں لڑائی کو ہوا دی جارہی ہے۔ اس سے اگلا منظر نامہ سلفی اور