کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 20
یہ اعلان قبل از وقت ہے اور بعض اسے مقامی سنّی قبائل کی جدوجہد کمزور کرنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔دوسری طرف افغانستان، پاکستان کے طالبان اور نائیجریا کی جہادی تنظیم بوکوحرام وغیرہ دولتِ اسلامی کی تائید کررہی ہیں۔ ۷ مارچ کو جب سعودی حکومت نے اخوان المسلمون کو باضابطہ دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا تو ا س کے ساتھ ہی داعش اور جبہۃ النصرۃ کو بھی دہشت گرد تنظیمیں ڈکلیئر کیا گیا تھا۔ جولائی کے وسط میں عراق ؍سعودی بارڈر پر ۳۰ ہزار فوجیوں کو بھی تعینات کردیا گیا۔ جیساکہ پیچھے گزر چکا ہے کہ داعش، مختلف رجحانات والے عناصر کے مجموعے پر مشتمل ہے، جن میں عالمی جارحیت و قبضے کے خلاف عسکری جدوجہد کا مرکزی نظریہ کارفرما ہے۔ ایک طرف مغربی قوتیں، جاسوسی کے ذریعے ان مختلف الخیال قوتوں کے انتشار کا انتظار کررہی ہیں اور دوسری طرف اپنے مہرے ڈھونڈ رہی ہیں تاکہ ان کو تقسیم کرکے، اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جائیں۔ مسلم عرب حکومتوں کو بھی ڈرایا جارہا ہے کہ اگر خلیجی ریاستوں، اُردن اورسعودی عرب نے مل کر داعش کا راستہ نہ روکا، تو مستقبل میں خلافت کے مقدس نظریے تلے علاقائی حکومتیں ختم ہوکر رہ جائیں گی۔ اس ساری جدوجہد کا خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر داعش کی یہ حکومت مستحکم ہوجاتی ہے توایران کی عجمی شیعہ ریاست کے ساتھ ساتھ، موجودہ باقی ماندہ عراقی ریاست کی صورت میں ایک اور شیعہ عرب ریاست وجود میں لائی جائے، اس لیے ایران کو عراقی حکومت کا ساتھ دینے کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے،کیونکہ دوسری طرف جب سارے سنی عناصر داعش کے زیرقیادت متحد ویکجا ہوگئے اوراس سے قبل کردستان کے نام سے عراق میں ایک آزاد ریاست پہلے سے قائم ہوچکی ہے،امریکہ وترکی اس کو قبول کرچکے ہیں، تو باقی ماندہ عراق میں شیعہ اکثریت پر شیعہ عرب ریاست قائم کرنے کی دیرینہ سازش از خود پوری ہو جائے گی۔ ایران وشام کی شیعہ حکومتیں، امریکہ کی قیادت میں اسی سمت پیش قدمی کررہی ہیں۔ شیعہ ریاست کے قیام کے ساتھ، دولت اسلامیہ کے قیام کے ذریعے سنی سلفی اجتماعیت کو بھی تقسیم اور باہم متحارب کرایا جائے گا۔اور داعش کے بارے میں یہ خطرات موجود ہیں کہ وہ سعودی عرب کی طرف پیش قدمی کرےجیسا کہ اس کی تفصیلات آگے آرہی ہیں۔