کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 19
٭ ایک طرف ایران اور اس کے زیرقیادت شیعہ قوم کا یہ رویہ ہے تو دوسری طرف یہ ایرانی وحدتِ اسلامی کا ٹائٹل بھی تھامے ہوئے ہیں۔ مشرقِ وسطی کا اصل المیہ اسرائیل ہے، لیکن اس کی طرف کوئی توجہ کرنے کے بجائے صرف زبانی بیان بازی پر اکتفا کیا جاتاہے حتی کہ ’القدس فورس‘ سنیوں کے خلاف کاروائی کے لیے عراق میں بھیجی جاتی ہے۔اسرائیل کے خلاف ایران کا یہ زبانی جمع خرچ، اس کے ’وحدتِ اسلامی‘ یا امریکہ کے ’انسانی حقوق‘ کے کھوکھلے نعرے کی طرح، کوئی زمینی وزن نہیں رکھتا۔ کیونکہ عملاً پورےے عالم اسلام میں ایران میں سب سے زیادہ یہودیوں سے ہمدردی پائی جاتی ہے اور کسی بھی مسلم ملک سے زیادہ یہودی ایران میں بستے ہیں۔ بی بی سی کی خبر ملاحظہ کریں:
’’اینٹی ڈیفی میشن لیگ (اے ڈی ایل) یا ’ہتکِ عزت مخالف لیگ‘ نامی تنظیم کے اس جائزے کے مطابق صرف ۵۶ فیصدایرانی یہودیوں کے خلاف رائے رکھتے ہیں جب کہ ترکی میں اس رائے کاتناسب ۶۹ فیصد اور فلسطینی علاقوں میں ۹۳ فیصد ہے۔
ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن اور ذرائع ابلاغ کے دوسرے روایت پسند ادارے ’مرگِ انبوہ‘ یا ’ہولوکاسٹ‘ کو گھٹا کر ہی پیش کرتے ہیں۔دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازیوں کے ہاتھوں ۶۰ لاکھ یہودیوں کو ہلاک کیا گیا، اسی بنا پر اسے ہولوکاسٹ یا مرگِ انبوہ کہا جاتا ہے۔۶مئی ۲۰۱۴ء کو ایران میں سخت گیر موقف رکھنے والے ارکانِ پارلیمنٹ نے ایرانی وزیرِ خارجہ جاوید ظریف کو اس بنا پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا کہ انھوں نے جرمنی کے ایک ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے مرگِ انبوہ کو ایک’سانحہ‘قرار دیا تھا۔‘‘ [1]
داعش اور عالم اسلام
’دولت ِخلافت اسلامیہ ‘ کی مخالفت کرنے والوں میں اخوان کے بزرگ رہنما علامہ یوسف قرضاوی، اخوان المسلمون اور اس کی حامی جماعتیں وغیرہ شامل ہیں۔عراق، اُردن، مراکش کےعلاوہ یورپی ممالک کی علما کونسلیں بھی اس کی مذمت میں پیش پیش ہیں۔بعض کا کہنا ہےکہ
[1] عنوان خبر’یہودیوں کی مخالفت میں ایرانی سب سے پیچھے‘: بی بی سی، ۱۷ مئی ۲۰۱۴ء