کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 18
ہیں۔یہ انتقامی نظریہ ہی ہے جس نے سقوطِ بغداد اور برصغیر میں سراج الدولہ اور سلطان ٹیپوکی حکومت گرانے میں شیعہ کو سازشی کردار اور عالمی استعمار کا ساتھ دینے پر آمادہ کیا۔
٭ داعش کی خبروں کے ساتھ ہی ایران میں انہی دنوں ایک نیا قانون منظور ہوا ہے کہ ’’ایران میں کوئی تنظیم اس وقت تک رجسٹرنہیں کی جائے گی، جب تک وہ ایران کے روحانی پیشوا، آیت اللہ خامنہ ای کے افکار کی غیر مشروط اتباع کا دم نہ بھرے۔‘‘ ۲۰ سال سے ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ’’وہ امام مہدی کے نائب ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو جوابدہ نہیں۔‘‘ ’اسلامی جمہوریہ ایران‘ کے ان اقدامات کا مطلب بدترین فکری جبر کے سوا اور کیا ہے؟ یہ فکری جبر نہ تو اس کے دعواے جمہوریت کے مطابق ہے اور نہ ہی ’اسلامی‘کےسابقہ کے مصداق ہے، جس میں مخصوص شیعی فکر کے علاوہ کوئی اور نظریہ اختیار کرنا اور پھیلانا قانوناً ممنوع ہے۔ایسی ہی ایک اور چبھتی ہوئی خبر یہ بھی ہے کہ
’’ ۸؍شوال ۱۴۳۵ھ بمطابق ۵؍اگست ۲۰۱۴ء کو دنیا بھر میں شیعہ برادری نے ’یوم انہدامِ جنت البقیع‘ منایا۔یورپی ممالک اور واشنگٹن میں سعودی سفارتخانے کے سامنےشیعہ مظاہرین نے احتجاج کیا۔ کراچی میں شیعہ رہنما مختار امامی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج فلسطین میں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام اس لئے جاری ہے کہ ہم نے ماضی میں سعودی حکمرانوں کے مظالم پرمجرمانہ خاموشی اختیار کی۔ پاکستان میں تحریکِ نفاذ فقہ جعفریہ کے قائد سید حامد علی شاہ موسوی نے کہا کہ ۱۹۲۶ء میں اس دن خاتم الانبیا کی ازواج اور اصحابِ اہل بیتِ اطہار کے روضے مسمار کردیے گئے جس پر شیعہ مسلمان دنیا بھر میں احتجاج کرتے اور نوحہ کناں ہیں۔اسلام آباد میں احتجاجی ماتمی جلوس امام بارگاہ دربارسخی محمود بادشاہ سے برآمد ہوا، لاہورمیں پریس کلب کےباہر احتجاجی ریلی ہوئی۔ پاکستان،بھارت اور دنیا کے مختلف شہروں میں اس موقع پر ماتمی جلوس اور مجالس عزا کا انعقاد کیا گیا۔ اُنہوں نے مسلم حکمرانوں او رعوام سے شکوہ کیا کہ وہ سعودی حکومت سے خائف کیوں ہیں، احتجاج کیوں نہیں کرتے؟ یہ روح فرسا واقعہ ایک گھناؤنی سازش ہے جس کے خلاف شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے‘‘ [1]
[1] روزنامہ جنگ و نوائے وقت :۵؍ اگست ۲۰۱۴ء