کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 17
مزاحمت کا رنگ اس لیے بھی مزید واضح ہوجاتا ہے کہ جب سب شیعہ اپنے تعصّب میں ایک طرف مجتمع ہوجاتے ہیں، جیسے کہ عراق میں نور ی المالکی شیعہ تعصب کا مرکز اور نمائندہ ہے تو ایسے حالات میں مزاحمت کرنے والے عناصر میں صرف سنّی ہی باقی رہ جاتے ہیں یا ان کے ساتھ بعض سیکولر آزادی پسند لوگ مثلاً صدام حکومت کی باقیات اور اسٹیبلشمنٹ بھی کھڑی ہوجاتی ہے،یا مظلوم عوام بھی ساتھ آجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عراق میں امریکی تسلط کے خاتمے کی جدوجہد، دیگر خطوں کے بالمقابل شیعہ سنّی مخاصمت کا رنگ لیے ہوئے ہے، جبکہ اس میں داعش کے ساتھ دیگر عناصر بھی موجود ہیں جو امریکی کٹھ پتلی نظام جبر کے مخالف ہیں۔ مغرب کی ایران نوازی ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام کے بعدماضی قریب میں ایران میں شیعہ انقلاب آیا، افغانستان میں حنفی رجحانات کے حامل طالبان نے ’امارتِ اسلامیہ‘ قائم کی اور مصر میں اخوان المسلمون اور فلسطین والجزائر میں اخوان کی ہم خیال جماعتوں کی حکومتیں جمہوریت کے ذریعے برسر اقتدار آئیں۔ ان میں سے ہر حکومت کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا اور اس کے خلاف عالمی طاقتیں یکسو ہوگئیں، جبکہ ایرانی انقلاب کو راہ دی گئی اور وہ آج تک اُمتِ اسلامیہ میں اپنے بد اَثرات پھیلا رہا ہے۔شیعیت کو ایسی کیا خصوصیت حاصل ہے کہ اسلام کے دعوے کے باوجود، عالمی کفریہ طاقتیں اس کو گوارا کرتی ہیں؟آج عالمی طاقتوں کی یہی سیاسی تدبیر، مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں میں شیعیت اور سنیت کی کشمکش کی ایک خطرناک تصویر اُبھاررہی ہے۔ ایرانی انقلاب نے روزِ اوّل سے حرمین پرقبضہ کی مذموم کوشش، طویل ایران عراق جنگ، پاکستان میں شیعہ سنّی فسادات جس کے دفاع میں سپاہ صحابہ رضی اللہ عنہم بنی،افغانستان میں طالبان حکومت کے ۲۰۰۱ء میں خاتمے کی امریکی کوشش میں ایرانی وحدتِ اسلامی کا شمالی اتحاد کا ساتھ دینا،عراق میں نوری المالکی کے تسلط کے ذریعے سنیّوں کو کچلنا اور شام میں سنّیوں کی نسل کشی، اور اسی سال افغانستان کو تباہ کرنے والی امریکی افواج او رنیٹو کو واپسی کا محفوظ راستہ دینا وغیرہ کے بدنتائج دیے ہیں۔ دراصل شیعہ انتقامی سیاست کے علم بردار ہیں، اور وہ اہل السنّہ کو سیدنا علی اور ان کے خانوادے کو خلافت نہ دینے کا مجرم خیال کرتے ہیں۔اس انتقامی نظریہ کی بنا پر، ان کی جدوجہد کا محور عالم کفر کی بجائے عالم اسلام بنتا ہے کیونکہ وہ انہی کو غاصب سمجھتے