کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 15
رہے ہیں بلکہ اس لیے چڑھی ہیں کہ شیعہ رضاکاروں میں ان کی مانگ زیادہ ہو گئی ہے۔شیعہ رضا کاروں کی ایک بڑی تعداد ہمسایہ ملک ایران سے بغداد پہنچی ہے۔بغداد کے نواح میں سنی آبادیاں موجود ہیں اور بغداد کے اندر بھی امیریہ اور خدرا کے سنّی اکثریتی علاقے ہیں، لیکن مجموعی طور پر بغداد میں شیعہ کی اکثریت ہے۔بی بی سی کے مطابق
’’اگر آپ وائٹ ہاؤس اور برطانوی دفترِ خارجہ کے بیانات کو سنیں تو آپ ضرور سوچیں کہ وہ موجودہ بحران میں ایران کو ایک چھوٹا سا کردار ادا کرنے کی منصفانہ اجازت دے رہے ہیں...لڑائی میں شیعہ رضاکاروں کی جوابی شرکت نے یہ خطرہ پیدا کر دیا ہے کہ یہی سنّی یہ سوچنے لگیں کہ شیعہ عام سنیّوں سے انتقام لیں گے۔ اسی کے نتیجے میں وہ یہ بھی محسوس کرنے لگیں کہ داعش ہی وہ واحد گروہ ہے جو اُن کی حفاظت کر سکتا ہے۔‘‘ [1]
بی بی سی کا بغداد ایڈیٹر جان سمپسن لکھتا ہے:
’’[بغداد کے نواحی علاقہ ]بعقوبہ کی لڑائی میں معاملہ تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ فوجی جو داعش کو شہر کے مرکز سے باہر دھکیل رہے ہیں جزوی طور پر ان شیعہ رضاکاروں پر مشتمل ہیں جو اس جنگ میں سنّی دشمنوں سے لڑنے کے لیے آئے ہیں۔‘‘
روسی فضائیہ بھی عراقی حکومت کی پشت پر ہے کیونکہ قفقاز میں جاری جہادی تحریک اور داعش میں نظریاتی قرب وتعلق پایا جاتا ہے، دونوں کا دشمن مشترکہ ہے یعنی جہاد کی عالمی تحریک۔ گویا دولتِ اسلامیہ کو حالیہ طور پر امریکہ، عراق، ایران اور روس کی مشترکہ فوجی قوت کا سامنا ہے۔عراقی افواج میں، ایران سے آنے والے دستے اور جنگی سازوسامان براہِ راست شریک ہیں۔نیزامریکہ عراقی کٹھ پتلی حکومت کے تحفظ کے مسئلہ پر ایران سے براہِ راست بات چیت اور مشاورت کررہا ہے۔ان تفصیلات سے علم ہوتاہے کہ عالم اسلام سے امریکہ کے مقابلے اور ٹکڑ لینے کی حمایت حاصل کرنے اور وحدتِ اسلامی کے فلک بوس نعرے لگانے والا ایران کا چہرہ، داعش کے معاملے میں کھل کر سامنے آگیا ہے، اور یہاں وہ مغرب کے متحرک آلہ کارکا کردار ادا کررہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ وبرطانیہ کی اہل اسلام کو کچلنے کی مہم میں سفارتی پشت پناہی اور عالمی تائید ایران کو حاصل ہے اور یہاں ایرانی حکومت اور شیعہ
[1] http://www.bbc.co.uk/urdu/2014/06/140623_what constitutes-isis-sq.shtml