کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 13
کارکن کو ۵۰۰ ڈالر ماہانہ پر بھرتی کرکے، اپنے شہروں میں ہر ہر چیز کی قیمت نصف کردی ہے۔ اس کے لیے اس کے پاس عراق وشام کے تیل کے اہم کنووں پر قبضہ کرلینا اہم کامیابی ہے۔ شام کا تیل سے مالا مال علاقہ ’دیر الزور‘ اور عراق کی سب سے بڑی آئل ریفائنری اُن کے قبضے میں ہیں جہاں سے وہ شام اور دیگر حکومتوں کو تیل فروخت کررہے ہیں۔ اسی طرح عراق کا سب سے بڑا پانی کا ڈیم: موصل ڈیم، فلوجہ ڈیم اور شام کا ’طبقہ ڈیم ‘ جو اسد جھیل پر ہے، بھی ان کے کنٹرول میں ہیں۔اس لحاظ سے تیل اور پانی،دونوں بڑے وسائل، وافر تعداد میں اُنہیں حاصل ہیں اور وہ کسی بھی وقت پورے عراق کو ابتری سے دوچار کرسکتے ہیں۔ داعش نے بڑی منصوبہ بندی سے تیل اور پانی کے مراکز کے علاوہ، زرعی دولت سے مالامال سرزمین کو ہدف بنایا ہے، جہاں زیادہ تر اہل السنّہ عقائد کے حامل مسلمان آباد ہیں۔اسے دنیا کی سب سے مال دار اور اسلحہ کی طاقت رکھنے والے تنظیم سمجھا جاتا ہے۔ قابل ذِکر امریہ ہے کہ ۲۲؍ اپریل کو یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ اتحاد کے اجلاس میں ۲۷؍ ارکان نے یہ طے کیا تھا کہ شام میں مزاحمتی تحریک سے تیل کی خرید کا آزادانہ سلسلہ شروع کیا جائے، اس کے نتیجے میں داعش اور کرد تحریکات کے لیے تیل فروخت کرنے کے امکانات وسیع ہوگئے۔اور یوں مالی وسائل فراہم کرنا ان کے لیے ممکن ہوا۔ داعش کے خلاف عالمی مزاحمت عراقی حکومت اور افواج دولتِ اسلامی کے مقابلے میں بے بس نظر آرہی ہیں۔۴ جولائی کو امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف آرمی سٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی نے کہا کہ عراقی فوجیں، دولتِ اسلامی کا مختلف شہروں سے قبضہ واپس نہیں لے سکتیں۔عراق نے اقوام متحدہ اور سپر طاقتوں کو اپنی جنگ میں جھونکنےکے لیے دولتِ اسلامی پر موصل کی یونیورسٹی سے ایٹمی مواد کے حصول کا الزام عائد کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹر ی جنرل کو لکھے گئے ایک خط میں ’مثنی کمپلیکس‘ نامی ایک فیکٹری کے بھی دولتِ اسلامی کے ہاتھ لگ جانے کی شکایت کی گئی ہے، جس میں صدام دور میں کیمیائی ہتھیار بنائے جانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ امریکہ نے اس سلسلے میں ۳۰۰ فوجی اپنی کٹھ پتلی مالکی حکومت کی مدد کے لیے بھیجے ہیں، لیکن اس کا اصرار ہے کہ یہ فوجی انٹیلی جنس اور رہنمائی کے عمل تک محدود رہیں گے، میدانِ جنگ میں اُنہیں نہیں بھیجا جائے