کتاب: محدث شمارہ 366 - صفحہ 12
ضرور کہیں گے کہ اس امارت کو اُمتِ اسلامیہ، اتحادی کونسلوں، افواج، جماعتوں، تنظیموں اور تحریکوں نے تسلیم نہیں کیا۔ اور یہ بھی کہ یہ خارجیوں کی ریاست ہے۔ ایسےالزامات کے غلط اور جھوٹے ہونے کی دلیل وہ شہرہیں جو دولت کے ماتحت آچکے ہیں۔ اور یہ بھی شبہ کہ یہ ایک چنگاری ہے جو کبھی بجھ سکتی ہے اور کافر اَقوام اسے باقی رہنے نہیں دیں گی۔‘‘ [1]
دولتِ اسلامی کا اپنے زیر قبضہ شہروں میں کیا رویہ ہے، بالخصوص شام کے صوبہ رَقہ میں جہاں دولت کا اقتدار ۱۴ ماہ (مئی ۲۰۱۳ء) سے موجود ہے کہ
۱۔ وہاں خواتین کو شرعی حجاب کی پابندی اور مردوں کو ڈاڑھی رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے اور اس کی تلقین کے پوسٹر ز، آیات سے مزین سٹرکوں پر موجو دہیں۔
۲۔ بی بی سی کے مطابق داعش ایسا نظام چاہتی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کے دور کا ہے اور قرآنِ کریم کے الفاظ کی پابندی کرنے کی داعی ہے۔
۳۔ وہ عراقی یا شامی شہریت کو ترجیح دینےکے بجائے تجربہ کار اور پختہ فکر مسلمانوں کو نظام حکومت میں ترجیح دیتی ہے۔
۴۔ اپنی باضابطہ فوج میں شامل ہونے سے پہلے باقاعدہ دوہفتے کی دینی تعلیم اور ایک ہفتے کی عسکری ٹریننگ دیتی ہے۔
۵۔ بعض ذرائع کے مطابق، دولت کے زیر نظم شہروں میں غیرمسلموں کو امتیازی لباس وشناخت دے کر، اُن کے شہری حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے۔
۶۔ ہرشہر میں غلبہ ہونےکے ساتھ ہی امن وامان کی صورتحال پر فوری توجہ دی جاتی اور شرعی عدالتیں قائم کردی جاتی ہیں۔
۷۔ جہاں تک سماجی انصاف اور نظم ونسق کی بات ہے تو دولت اسلامی نے اپنے شہروں میں صفائی اور راستوں کی حفاظت کے علاوہ فوری انصاف کا مضبوط نظام بھی قائم کیا ہے۔
دولت نے حال ہی میں رَقہ میں اپنی عسکری طاقت اور فوجی پریڈ کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور ہر
[1] مذکورہ بالا تینوں بیانات کےاہم اقتباسات،داعش کے باضابطہ ترجمان عربی مجلہ’ دابق‘ کے پہلے شمارے بابت رمضان ۱۴۳۵ھ میں صفحہ ۶تا ۱۱ شائع ہو چکے ہیں،جب راقم نےانہیں اصل عربی تقاریر سےاخذ کیا ہے۔