کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 9
مثال پیش کرتے ہیں۔قرآن کی زبان میں تلاوتِ آیات، تزکیہ نفس،کتاب وحکمت [1]کی تعلیم اور اس کے مطابق اپنی عملی زندہ جیتی جاگتی مثال یعنی اسوہ حسنہ[2] کو پیش کرنا۔یعنی رسول صرف تعلیم نہیں دیتے بلکہ انسانوں کی تربیت کرتے ہیں، عملی زندگی میں اپنی ذات پر اس کو قائم کرکے دکھاتے ہیں کہ وہ کس طرح ہرمیدان میں اللہ کی بندگی کرنے والے، اس کے پیغام کو پھیلانے والے، کارزارِ حیات میں اس کے لیے ہمہ تن جدوجہد کرنے اور تکلیفیں برداشت کرنے والے اور اس دین الٰہی کے فروغ وتحفظ کے لیے ہر طرح کی تدبیر کرنے والے ہیں۔ظاہر ہے کہ رسول جو معاشرے میں سب سے مؤثر، سب سے حقیقی اور بامقصدتبدیلی لاتے ہیں، ان تمام کاوشوں کا محور ومرکز انسان ہی کی ذات ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بندگی کے لیے پیدا فرمایا، اور اس پر اپنی بندگی کا حق قائم وعائد کیا، اور رسول زندگی کےہر میدان میں اس بندگی کو قائم ودائم کردیتے ہیں۔ اللہ کی بندگی سے نعمتیں حاصل ہوتی ہیں! اس انسان کو حاصل تمام صلاحیتوں، انعامات اور وسائل، مال ودولت، رزق، زمین وجائیداد سب پر بظاہر انسان کا حکم چلتا ہے۔ایک مطیع ومسلمان شخص اپنے ہر معاملے میں اللہ کے احکام کا پابند ہوتا ہے، اس طرح ان تمام چیزوں پر جو اسی اللہ رازق ومالک ربّ ذوالجلال کی عطا ہیں، اللہ کا حکم جاری وساری ہوجاتا ہے۔جب انسان کا دل صالح ہوجاتا ہے تو معاشرہ صالح ہوجاتا ہے۔اور جب معاشرہ صالح ہوجائے، اللہ کے احکامات پر کاربند ہوجائے تو پھر اللہ کی نعمتیں زمین وآسمان سے بے تحاشا برسنا شروع ہوجاتی ہیں: ﴿وَلَو أَنَّهُم أَقامُوا التَّور‌ىٰةَ وَالإِنجيلَ وَما أُنزِلَ إِلَيهِم مِن رَ‌بِّهِم لَأَكَلوا مِن فَوقِهِم وَمِن تَحتِ أَر‌جُلِهِم﴾[3] ''اور اگر یہ لوگ تورات وانجیل اور ان کی جانب جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل فرمایا گیا ہے، ان کے پورے پابند رہتے تو یہ لوگ اپنے اوپر سے اور نیچے سے روزیاں
[1] ﴿لَقَد مَنَّ اللَّهُ عَلَى المُؤمِنينَ إِذ بَعَثَ فيهِم رَ‌سولًا مِن أَنفُسِهِم يَتلوا عَلَيهِم ءايٰتِهِ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتٰبَ وَالحِكمَةَ وَإِن كانوا مِن قَبلُ لَفى ضَلٰلٍ مُبينٍ﴾ (سورۃ آل عمران: ۱۶۴) [2] ﴿ لَقَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَر‌جُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ‌﴾ ( سورةالاحزاب:۲۱) [3] سورةالمائدة: ٦٦