کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 6
الرُّسُلِ﴾[1]
''ہم نے اُنہیں رسول بنایا، خوشخبریاں سنانے اور آگاه کرنے والے تاکہ رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر لوگوں کی کوئی حجت اور الزام ره نہ جائے۔''
اللہ تعالیٰ کے رسول کسی بھی معاشرے میں انقلاب بپا کر دیتے ہیں، ایک بدحال معاشرے کو اوجِ کمال تک پہنچا دیتے ہیں، رسولوں کی تعلیمات پر چلنے والوں کی آخرت کے ساتھ دنیا بھی سنور جاتی ہے۔تاریخ یہ بتاتی ہے کہ عرب کا بدترین معاشرہ محمدی تعلیمات کی روشنی سے منور ہوکر، چند ہی دہائیوں میں دنیا کی صالح ترین قوم بن گیا، اسلام پر عمل کرنے سے اُنہیں دین کی برکت کے ساتھ دنیا میں بھی عظمتیں نصیب ہوئیں۔دنیا کی سپر طاقتیں اس دعوتِ نبوی کے بعد اُن کے سامنے ٹھہر نہ سکیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کی تھی کہ میں قیصر وکسرٰی کے خزانے تمہارے ہاتھوں میں دیکھ رہا ہوں، جو حرف بحرف پوری ثابت ہوئی...:
((يا عدى بن حاتم! أسلِم تسلم، فلعلّك إنما يمنعك من الإسلام أنك ترٰى بمن حولى خصاصة وأنك ترى الناس علينا إلبا. هل رأيت الحيرة، فليوشكن أن الظعينة ترحل من الحيرة بغير جوار حتى تطوف بالبيت، وليفتحنّ علينا كنوز كسرٰى بن هرمز، ويوشك أن لا يجد الرجل من يعطى ماله صدقة)) [2]
''اے عدی بن حاتم! اسلام قبول کرلے، تو فلاح پاجائے گا۔شاید کہ تیرے اسلام سے گریز کی وجہ یہ ہے کہ تو میرے ارد گرد حاجت مندوں کو دیکھتا اور لوگوں کو ہمارے خلاف مجتمع پاتا ہے۔تو نے 'حیرہ' مقام کو دیکھا ہے؟ وہ وقت آنے والا ہے جب ايك عورت حیرہ سے کسی ہمراہ کے بغیربے خوف وخطر اکیلی بیت اللہ کے طواف کو نکلے گی۔اور عنقریب کسریٰ بن ہرمز کے خزانے ہم پر کھول دیے جائیں گے۔اور وہ وقت بڑا قریب ہے جب آدمی کو صدقہ وصول کرنے والا نہ ملے گا۔''
اس فرمانِ مبارکہ میں اسلام لانے والوں کو امن وامان، قومی طور پر دنیا کی سپر طاقت اور شخصی طور پر مال ودولت کی فراوانی کی خوشخبری دی گئی ہے، اور چند ہی سالوں میں یہ سب کچھ
[1] سورةالنساء: ١٦٥
[2] مسند احمد: ۴؍۳۷۷، رقم ۱۹۳۹۷ ؛ مستدرک حاكم :۴؍۵۶۴، رقم ۸۵۸۲وقال : صحيح علىٰ شرط الشیخین