کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 50
منہ سے شراب کی بدبو یا مشروب کی قے کرنے کو شہادت سمجھا جائے گا؟
شراب کی بدبو یا قے کرنے سے حد کے وجوب میں تین اقوال پر اختلاف ہے۔[1]
پہلا قول : منہ سے شراب کی بدبو آنے یا قے کرنے کی وجہ سے حد واجب نہیں ہوتی۔اکثر اہل علم، امام ثوری، ابوحنیفہ، شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ (ایک روایت کے مطابق)کا یہی موقف ہے۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ ممکن ہے، اس نے اسے پانی سمجھ کر منہ میں ڈالا او رپھر احساس ہونےپر اس کی کلی کردی ہو، یا سمجھا ہو کہ شائد یہ نشہ آور نہیں ہے یا جبراً پلائی گئی ہو یا اس نے سیب کا رس پیا ہو (اس سے بھی کچھ شراب جیسی بو کااحساس ہوتا ہے)۔ان وجوہات سے شراب کی بدبو پیدا ہوسکتی ہے۔جب یہ احتمالات موجود ہیں تو حدّ واجب نہیں ہوسکتی کیونکہ شبہات کی وجہ سے حدّ ساقط ہوجاتی ہے۔[2]
دوسرا قول : بدبو آنے یا قے کرنے سے حدّ واجب ہوجاتی ہے۔
یہ امام مالک رحمہ اللہ کا موقف ہے او رامام احمد رحمہ اللہ سے دوسری روایت ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ابن قیم رحمہ اللہ نے اسی موقف کو پسند کیا ہے۔ان کا استدلال یہ ہے کہ اس قول کے مطابق صحابہ کرام حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ او رابن مسعود رضی اللہ عنہ کے فیصلے موجود ہیں:
۱۔سائب بن یزید کاکہنا ہے کہ اُنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عدالت میں ایک شرابی کو منہ سے بدبو آنے کی وجہ سے کوڑوں کی سزا دلواتے دیکھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے پوری حدّ لگائی۔[3]
پہلے فریق نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس روایت کو ایسے انداز میں مختصر کیا گیا ہے کہ مفہوم میں خلل پیدا ہوگیا ہے۔یہ روایت اصلی شکل میں یوں ہے:
''معمر نے امام زہری رحمہ اللہ سے اورامام زہری رحمہ اللہ نے سائب بن یزید رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک جنازہ پڑھایا، میں بھی وہاں
[1] المبسوط :۲۴؍۳۱؛ مجموع الفتاوی :۲۸؍۳۳۹؛ الحدود والتعزیرات : ۳۲۵
[2] المغنی :۱۰؍۳۳۲
[3] مصنف عبدالرزاق :۱۰؍۲۲۸