کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 5
((أَلَا إِنَّ كُلَّ رِبًا مِنْ رِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ لَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ)) .... قَالَ: ((اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ؟)) قَالُوا: نَعَمْ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَ: ((اللَّهُمَّ اشْهَدْ)) ثَلَاثَ مَرَّاتٍ[1]
''خبردار ہوجاؤ! جاہلیت کے سود معاف کردیےگئے ہیں، اب تمہارے لیے صرف تمہارے اصل مال لینے کی ہی اجازت ہے۔پھر آپ نے فرمایا: یا الٰہی! کیا میں نے پہنچا دیا ہے تو صحابہ نے جواب دیا : ہاں، تین مرتبہ... پھر آپ نے بھی تین مرتبہ کہا: یا الٰہی ! اس پر گواہ ہوجا۔''
رسولوں کے پہنچا دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنا یہ حق جتایا ہے، فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :
((هَلْ تَدْري ما حَقُّ اللّٰهِ عَلى عِبادِهِ؟)) قُلْتُ: اللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((حَقُّ اللّٰهِ عَلى عِبادِهِ أَنْ يَعْبُدوهُ وَلا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئاً ... )) [2]
''یا معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائیں۔''
اللہ کی اس بندگی کا مطلب زندگی کے ہر ہر مرحلہ پر ربّ کریم کی تعلیمات کو پیش نظر رکھنا اور اسے ہر لمحہ اپنے اوپر لاگو کرنے کی جہدِ مسلسل کرنا ہے۔جب ہم اللہ کی اس بندگی کو صرف اپنے عقائد اور عبادات ومناکحات (نکاح وطلاق) تک محدود کرلیتے ہیں اور یہ باور کرتےہیں کہ سیاست وعدالت، معیشت ومعاشرت اور تعلیم وابلاغ میں ہمیں اللہ یا اپنے دین کی ہدایات کی ضرورت نہیں تو یہ بھی اللہ کی بندگی اور عبادت سے انحراف ہےاور یہی سیکولرزم ہے کہ مسجد وعبادت یعنی پرائیویٹ زندگی کے علاوہ، ہردو افراد کے باہمی؍ ہمہ نوعیتی معاملات میں اللہ کی تعلیمات وہدایات کو نظرانداز کردیا جائے۔اسی لیے اللہ تعالےٰ نے رسولوں کو مبعوث کیا کہ وہ لوگوں پر اللہ کی اطاعت کے تقاضے واضح کردیں اور رسولوں کی یہ تعلیمات زندگی کے ہرہر میدان میں ہیں۔تجارت اور معاملات سے لیکر، سیاست ومعاشرت کے جمیع میدانوں میں ... :
﴿رُسُلًا مُبَشِّرينَ وَمُنذِرينَ لِئَلّا يَكونَ لِلنّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌ بَعدَ
[1] سنن ابو داود: ۳۳۳۴
[2] صحیح بخاری: ۵۸۶۷