کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 48
ہے جو اُنہوں نے کہا تھا کہ اسے (شرابی کو) میرے پاس چوتھی مرتبہ لاؤ، میں اسے قتل کروں گا۔[1] راجح موقف جمہور علما کا موقف راجح معلوم ہوتا ہے کہ شرابی کو چوتھی مرتبہ قتل کرنامنسوخ ہوچکا ہے کیونکہ اس پرنصوص موجود ہیں او راجماع بھی ثابت ہے۔نقضِ اجماع کے دعویٰ میں حضرت عبداللہ بن عمرو کا قول ثابت نہیں بلکہ وہ سنداً ضعیف ہے۔بفرضِ محال اسے صحیح مانیں تو کہہ سکتے ہیں کہ اُنہیں نسخ والی احادیث نہ پہنچی ہوں او راس مخالفت کو شذوذ کی حیثیت حاصل ہوگی۔[2] لیکن اگر لوگ شراب کے رسیا ہوجائیں اور اس قبیح عادت میں غرق ہو جائیں، حدّ(کا نفاذ) ان کے لئے مانع ثابت نہ ہو تو کیا قاضی مصلحت اور سیاست کو مدِ نظر رکھتے ہوےانہیں قتل کی سزا دےسکتا ہے یا نہیں؟ جیسا کہ امام ابن تیمیہ او رابن قیم رحمہما اللہ مصلحتاً قتل (کی سزا )کے قائل ہیں۔دراصل یہ نظر و فکر او راجتہاد کا مقام ہے۔واللہ اعلم! حدِ خمر کے ثبوت کے ذرائع[3] ۱۔اقرار شرابی ایک دفعہ بھی شراب پینے کا اعتراف کرلے تو حد خمر ثابت ہوجائے گی، اس اعتراف کے ساتھ منہ سے شراب کی بدبو کا آنا شرط نہیں ہے۔اکثر اہل علم کا یہی موقف ہے کیونکہ شراب نوش بدبو زائل ہونے کے بعد بھی اعتراف کرسکتا ہے۔ جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اعتراف کے ساتھ منہ سے بدبو آنے کی شرط لگاتے ہیں۔
[1] مسنداحمد :۶۷۵۲ ... شيخ احمد شاكر نے اس کی سند صحیح قرار دیا ہے؛ مسنداحمد:۲؍۱۹۱ [2] فتح الباری :۱۲؍۸۲ [3] المغنی:۹؍۱۳۸؛ مجموع الفتاویٰ :۲۸؍۲۳۹