کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 47
حدیث سے نسخ کا دعویٰ صحیح نہیں کیونکہ یہ عام ہے اور شرابی کو قتل کرنے کی حدیث خاص ہے۔ ۵۔قتل کے منسوخ ہونے پر جمہور نے اجماع کو بھی دلیل بنایا ہے کہ قتل کے خلاف اجماع ہوچکا ہے، قتل نہ کرنے پر دلیل حدیث جابر کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا: ''میرے علم کی حد تک شرابی کو قتل نہ کرنے میں علما کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔'' امام ترمذی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ''اس مسئلہ میں قدیم یا حالیہ کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔'' شرابی کے قتل سے متعلق دوسری رائے شرابی کے قتل سے متعلق احادیث محکم ہیں، منسوخ نہیں۔امام ابن حزم او رابن قیم رحمہ اللہ کا یہی نظریہ ہے۔اس اُصول کی حد تک دونوں میں اتفاق ہے، البتہ نتیجہ میں اختلاف کرتے ہیں۔امام ابن حزم رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ اسے چوتھی مرتبہ بطورِ حد قتل کیا جائے گا جبکہ ابن قیم رحمہ اللہ(م۷۵۱ھ) کی راےہے کہ ''اگر اسے چوتھی مرتبہ قتل کرنے میں مصلحت ہو تو تعزیراً قتل کیا جاسکتا ہے۔اگر وہ(شراب نوش) شراب پینے کا عادی ہوجائے، حد کو ہلکا سمجھنے لگے اور حدسے اسے کوئی عبرت حاصل نہ ہو تو قاضی اسے حد کے طور پر نہیں بلکہ من باب التعزیر قتل کرسکتا ہے۔'' ابن حزم او رابن قیم رحمہم اللہ نے جمہور کی طرف سے چوتھی مرتبہ شراب پینے پر قتل کے نسخ اور اس پر اجماع کے دعویٰ کامناقشہ؍ تجزیہ مندرجہ ذیل طریقے سے کیا ہے: ۱۔امام ابن حزم رحمہ اللہ نے ان احادیث کو ضعیف قرا ردیا ہے جن میں قتل نہ کرنے کا ذکرہے۔ ۲۔اس آدمی کوبار بار کوڑے لگنے کی حدیث جس کا لقب حمار تھا، اگرچہ اس مفہوم میں خاص ہے لیکن اس سے نسخ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس حدیث کا قتل والی حدیث سے متاخر ثابت کرنا ضروری ہے او ریہ ثابت نہیں ہے۔ ۳۔اس عام حدیث جس میں صرف تین وجوہات سے مسلمان کے قتل کا جواز ملتا ہے، اس سے نسخ کا دعویٰ صحیح نہیں کیونکہ یہ عام ہے اور قتل کی سزا پر مشتمل حدیث خاص ہے اور خاص کو عام پر مقدم رکھا جاتا ہے۔ ۴۔اجماعِ صحابہ کا دعویٰ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کے اس قول سے ختم ہوجاتا