کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 43
بعد جو اجماعِ صحابہ کا دعویٰ کیا ہے، اس پر یہ اعتراض آتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ چالیس کے قائل تھے، پھر اجماع کا دعویٰ کیسا...؟
حاصل کلام یہی ہے کہ حد چالیس ہی ہے،تاہم قاضی مصلحت اور لوگوں کے احوال کو دیکھتے ہوئے بطورِ تعزیر اس میں اضافہ کرسکتا ہے۔
حد خمر نافذ کرنے کا طریقہ
شراب نوشی کے حالات اور مصلحت کو دیکھتے ہوئے شراب نوش کو کھجور کی ٹہنی، ہاتھوں، جوتوں، کپڑوں اور کوڑوں سے حد لگائی جاسکتی ہے۔اس پر سائب بن یزید کے الفاظ دلیل ہیں:
'' ہم شراب پینے والےکو اپنے ہاتھوں، جوتوں او رچادروں سے مارتے۔''[1]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب پینے میں کھجوروں کی ٹہنیوں اور جوتوں سے ضرب لگائی۔[2]
یہ امام شافعی رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف ہے۔جبکہ جمہور کا موقف ہے کہ باقی حدود کی طرح شراب کی حد بھی کوڑوں سے لگائی جائے گی[3]۔کیونکہ ایک حدیث میں ہے:
((إذا شرب الخمر فاجلدوه)) [4]''اگر کوئی شراب پیئے تو اسے کوڑے لگاؤ۔''
جمہور کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب نوش کو کوڑے مارنے کا حکم دیا،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے زانی کو حد لگانے کا حکم دیا ہے تو حدِ زنا کی طرح یہ سزا کوڑوں سے ہی ہوگی اور اس پر یہ بھی دلیل ہے کہ خلفاے راشدین اور اُن کے بعد آنے والوں نے بھی کوڑوں سے ہی حد لگائی ہے۔جن احادیث میں ہاتھوں اور جوتوں وغیرہ سے مارنے کا ذکر ہے، وہ شروع اسلام کی بات ہے،بعد میں کوڑوں سے سزا دینے پر شرع ثابت ہوگئی۔یہی موقف قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم
[1] اس مفہوم پر احادیث پچھلے صفحات پر گزر چکی ہیں۔
[2] ایضاً...
[3] الہدایۃ :۲۱؍۱۱۱؛ مغنی المحتاج :۴؍۱۷۹؛المغنی:۴؍۳۵۴؛ مجموع الفتاوی:۷؍۴۸۳
[4] سنن ابی داؤد :۴۴۸۴، حدیث صحیح ہے۔