کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 42
رہا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کےمشورے سے جو اضافہ کیا، وہ حد سے زائد مقدار تعزیر کے طور پر تھی کیونکہ لوگوں میں شراب نوشی کی عادت بڑھتی جارہی تھی۔ اس موقف کی تائید دو طرح سے ہوتی ہے: ۱۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کوڑوں کی سزا میں بتدریج چالیس سے ساٹھ اور ساٹھ سے اَسّی کا اضافہ کیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فعل سے متعلق یہ روایت موجود ہےکہ پہلے اُنہوں نے چالیس کوڑوں کی سزا دی، پھر جب لوگوں کو دیکھا کہ باز نہیں آرہے تو اُسے ساٹھ کردیا۔پھر بھی لوگوں کے معمول میں کمی نہ آئی تو اسےبڑھا کر اَسّی (۸۰)کردیا اور کہا کہ یہ کم از کم حد (حد قذف) ہے۔[1] ۲۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک ہی وقت میں مصلحت کے تحت مختلف مقدار میں(شراب پینے کی) سزا (چالیس،ساٹھ یا اَسّی) دیا کرتے تھے۔ایک دفعہ ان کے پاس ایک شرابی کو لایا گیا، آپ نے حضرت مطیع بن اسود کو حکم دیا کہ صبح اس پر حد نافذ کرنا، حضرت عمر بعد میں آئے اور دیکھا کہ وہ بہت زور سے کوڑے مار رہے تھے۔آپ نےپوچھا : ۳۔کتنے کوڑے مار جاچکے ہیں؟مطیع نے کہا: ساٹھ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس سے بیس کوڑے کم کردو۔[2] امام ابوعبید رحمہ اللہ (م۲۲۴ھ) فرماتے ہیں: ''حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصد تھا کہ شدید ضرب کو ان بیس کے قائم مقام سمجھو کہ جو اس کی سزا سے باقی ہیں۔'' امام بیہقی رحمہ اللہ (م۴۵۸ھ) کا کہنا ہے کہ ''اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چالیس سے زیادہ حد نہیں، اس لئے کہ اگر وہ حد ہوتی تو شدتِ ضرب کی وجہ سے اس میں کمی نہ کی جاتی کیونکہ ضرب میں شدت کی وجہ سے عدد میں کمی کا کوئی قائل نہیں ہے۔''[3] اَسّی (۸۰) کوڑے حد ہونے کے قائلین نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صحابہ کرام سے مشاورت کے
[1] مصنف عبدالرزاق :۷۳۷۷۔... مرسل روایت [2] حافظ ابن حجرنے فتح الباری:۱۲؍۷۵ میں اسے الغریب لأبی عبید کی طرف منسوب کیا ہے اور اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ [3] سنن البیہقی :حدیث:۱۷۳۰۴ ؛ فتح الباری:۱۲؍۷۵