کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 40
۲۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ولید بن عقبہ پر شراب نوشی کے مقدمہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کوڑوں کے ساتھ سزا کی تنفیذ کا حکم دیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جعفر سے کوڑے مارنے کو کہا، جب چالیس کوڑے ہوئے تو رکنے کا کہا اورکہنے لگے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چالیس کوڑے لگوائے، حضرت عمر نے اَسّی (۸۰) کوڑے لگوائے۔یہ سب سنت ہے لیکن چالیس کا موقف مجھے پسند ہے۔[1] ۳۔حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں اگر ہمارے پاس شراب نوش کو لایا جاتا تو ہم اسے اپنے ہاتھوں، جوتوں اور چادروں وغیرہ سے پیٹتے۔یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو اُنہوں نےچالیس کوڑے لگانے شروع کردیئے۔حتیٰ کہ لوگ فسق و فجور اور شراب نوشی ارتکاب زیادہ کرنے لگے تو حضرت عمر نے اَسّی (۸۰) کوڑے مقرر کردیئے۔[2] ان روایات سے یہ استدلال واضح ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی ادوار میں چالیس کا عدد ہی مقرر تھا اور جب لوگ شراب کے عادی ہونے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چالیس کوڑوں کا تعزیراً اضافہ کردیا۔ اسی لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ''اگر میرے حد قائم کرنے سے کوئی فوت ہوجائے تو مجھے کوئی پروا نہیں سوائے شرابی کے، کہ اگر وہ حد کے نفاذ سے ہلاک ہوجائے تو میں اس کی دیت ادا کروں گا کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس طرح حد مقرر نہیں فرمائی۔'' [3] حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان سے شراب نوش کے لئے کوئی سزا مقرر نہیں کی کہ جس پر اضافہ نہ کیا جاسکے، اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مشاورت سے اضافہ کردیا او ریہ اضافی عقوبت بطورِ تعزیر تھی، اسی لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں چالیس کوڑے ہی لگائے اور کہا کہ یہ موقف مجھے پسند ہے۔
[1] صحیح مسلم :۱۷۰۷ [2] صحیح بخاری :۶۷۷۹ [3] صحیح بخاری :۶۷۷۸؛ صحیح مسلم :۱۷۰۷