کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 38
مزید برآں عقل صحیح اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ فرضِ مُحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہر نشہ آور چیز کو خمر کا نام دینے میں شامل نہ بھی ہوں، تاہم قیاسِ صحیح و صریح جس میں اصل وفرع ہر اعتبار سے برابر ہوں، تو اس کا فیصلہ یہی درست ہے کہ مُسکر کی تمام انواع و اقسام ایک ہی حکم میں داخل ہیں۔لہٰذا ان انواع میں فرق کرنا متماثلَین کے درمیان فرق کرنے کے قبیل سے ہوگا اور یہ عقل و قیاس صحیح کے خلاف ہے۔[1] اس بنا پر منشیات کی تمام اقسام (چرس، افیون، ہیروئن وغیرہ) حرام ہیں او ران پر خمر (شراب) کا نام صادق آتا ہے کیونکہ یہ نشہ آور ہیں اور عقل ماؤف کردیتی ہیں۔فاسق و فاجر لوگ سرور ومستی کی کیفیت طاری کرنے کیلئے اُنہیں لیتے ہیں او ریہی اوصاف شراب میں پائے جاتے ہیں۔ مذاہب اربعہ اور دیگر فقہا نے بالاتفاق ان کے حرام ہونے کی صراحت کی ہے۔[2] لیکن ان کے خیال میں اس کے قلیل استعمال (جس میں نشہ نہ ہو) میں حرمت نہیں بلکہ نشہ آور مقدار کا استعمال حرام ہے۔حالانکہ تحقیق اس بات کی متقاضی ہے کہ ان منشیات کے حرام ہونے پر اتفاق کے بعد، نصوصِ کتاب و سنت کے تحت اُن پر'خمر' کا اطلاق ہوتا ہے۔اِن کو خمر سے الگ حکم دینے کی کوئی وجہ نہیں۔اِن میں شراب کے مفاسد جیسا کہ عقل میں فساد، بے ہودگی اور سرور و بدمستی کے علاوہ دین، عقل، اخلاق اور مزاج میں ضرَر واضح نظر آتا ہے،بلکہ یہ انسان کی طبیعت و مزاج کو پاگل پن کی حد تک متاثر کرتے ہیں او ر ان کو استعمال کرنے والا گراوٹ و پستی اور ذلّت میں شراب نوشی کرنےوالےسے بھی نیچےجاگرتا ہے، چونکہ ان کے مفاسد و اَضرار شراب سے بڑھ کر ہیں،لہٰذا یہ بالاولیٰ حرام ہیں او ران کو 'خمر' کا نام دینا بالکل صحیح ہے، اور ان کی قلیل مقدار بھی کثیر کی طرح حرام ہی ہے او ران کے استعمال کرنے والے کو حد خمر لگے گی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م۷۲۸ھ) کا کہنا ہے : ''شریعت کا قاعدہ ہے کہ وہ حرام اشیا جن میں انسانی نفوس رغبت رکھتے ہیں، ان کے
[1] زاد المعاد :۵؍۷۴۹ [2] ابن عابدین :۴؍۴۲؛ الدسوقی:۴؍۳۵۲؛ مغنی المحتاج:۴؍۱۸۷؛ الانصاف: ۱۰؍۲۲۸