کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 33
خمر کا لفظ تانیث میں زیادہ مستعمل و مشہور ہے، اسی وجہ سے اس کے آخر میں تائے تانیث بھی آتی ہے جیسے : هٰذه خمرة. جب کہ مذکر استعمال بھی جائز ہے جیسے: هٰذا خمر.
خمر کی لغوی تحقیق
'القاموس المحیط ' کےمصنف جناب فیروز آبادی (م۸۱۷ھ)کاکہنا ہے :
''خمر'وہ ہے جو انگوروں کے رَس سے کشید کی جائے، یا یہ عام (جو کسی بھی پھل سے بنائی جائے)ہے، حقیقت میں اسے عموم پر رکھنا ہی زیادہ راجح ہے،کیونکہ جب یہ حرام ہوئی تو مدینہ میں انگوروں سے شراب کا تصور نہیں تھا بلکہ وہ تو کچی پکی کھجوروں سے ہی شراب بناتے تھے۔''[1]
خمر کے لغوی اور شرعی معنیٰ میں مناسبت
۱۔شراب پر لفظ 'خمر' کا اطلاق اس وجہ سے ہے کہ شراب کشیدکرنے کے لئے برتن کے منہ کو اوپر سے ڈھانپا جاتا ہے، حتیٰ کہ اس میں اُبال اور جوش کی کیفیت پیدا ہوجائے۔
۲۔عقل پرچھا جانےاور شعورکو ڈھانپ دینے کی وجہ سے یہ لفظ اس کےلئے مستعمل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خمر میں یہ دونوں سبب موجود ہیں۔شراب کو جوش مارنے اور تیار ہونے تک ڈھانپ کر رکھا جاتا ہے، پھر اس کو پینے پر عقل و شعور میں اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے او ریہ عقل کوڈھانپ دیتی ہے۔لہٰذاخمر کو ان دونوں معانی میں استعمال کرنے پر اہل لغت کے ہاں کوئی مانع نہیں۔
'خمر' کی شرعی حقیقت
خمر کے لغوی معنی اور شرعی استعمال میں کچھ اختلاف کی بنا پر فقہا کے درمیان خمر کی حقیقت میں دو اقوال پائے جاتے ہیں۔[2]
پہلا قول : 'خمر' صرف وہ ہے جو آگ پر پکائے بغیر انگوروں کے رس سے کشید کی جائے، جب وہ
[1] القاموس المحیط، مادۃ 'خمر'
[2] ابن عابدین ۵؍۲۸۸؛ الدسوقی ۴؍۳۵۳،المغنی ۹؍۱۵۹