کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 31
٭ تمہاری دعوت کا دنیا میں کوئی مقام نہیں اور آخرت میں بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ٭ ایک دن تمہیں میری باتیں یاد آئیں گی، میرے معاملات کا نگران اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ انبیاے کرام علیہم السلام کی دعوت ومشن یہی رہا ہے۔حضرت عیسیٰ بھی اسی مشن پر کاربند ہوکر عنقریب دنیا میں اسلام کا بول بالا کریں گے۔جب اُن کو چند سو مسلمان اللہ جل جلالہٗ کی عبادت وعبدیت کے خوگر مل جائیں گے، جو اللہ کے حکم کو لاگو کرنے کے لیے اپنے رشتوں وناطوں، دنیوی مفادات اورتجارت ومعیشت کو خاطر میں نہ لائیں گے، اُن کی اطاعت کاملہ اختیار کریں گےتو دیکھتے ہی دیکھتے اللہ تعالیٰ 'دورِ نبوی کے ان ۳۱۳ پیروکاروں کو' معاشرے میں سربلندی اور اپنے انعامات عطا کریں گے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے ذریعے عرب کے بدترین معاشرے کے حالات چند ہی سالوں میں بدل کر، اُنہیں کامیاب فرد ومعاشرہ بنا دیا تھا، اسی طرح عنقریب ظلم وزیادتی کی شکار اس دنیا میں چشم فلک اسلام کے عروج کے یہ مناظر دوبارہ دیکھے گی اور ہر کچے پکے گھر میں، عزت دے کر یا ذلّت سے دوچار کرکے، اسلام پوری شان وشوکت سے داخل ہوجائے گا۔ ہر انسان سے اللہ تعالیٰ کا تقاضااس قدر ہے کہ اپنے اپنے دائرہ عمل میں دین کو قائم کرے۔اپنی ذات پر نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ اور اسلامی اخلاق وآداب کو لاگو کرے، اور اپنے کنبے قبیلے پریہ دین بقدرِ امکان قائم کردے۔اپنے کاروبار،تعلیم وملازمت،میل جول، رشتے ناطے، خرید وفروخت، رویے و رجحان اور فیصلوں میں اسی دین کو اختیار کرے۔پھر اس چیز کی دعوت اپنے بھائیوں کو دے کہ اس پر اُن کا بھی حق ہے، اچھائی کی دعوت دے، برائی کے خاتمے کی کوشش کرے، اور دین کی جو نعمت اُسے حاصل ہوئی، ہر شخص تک پہنچانے کی کوشش کرے۔ جب تک ہم اپنے فکرونظر کے زاویے درست نہیں کرتے، اُنہیں ہدایتِ نبوی سے معمور نہیں کرتے اور قول وکردار کو اس کے مطابق استوار نہیں کرتے، لاکھ سرپٹکتے جائیں، کامیابی ہمارے قدم نہیں چومے گی۔اگر کامیابی ہوگی تو وہ بھی یک رخی، غیرمتوازن، عارضی اور صرف ایک دنیا کی حد تک ...اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت دے اور ہمارے اہل فکر ودانش اور اربابِِ اقتدار واختیار کو بھی توفیق مرحمت فرمائے۔(ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)