کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 28
وَمَا ذَاكَ بِحَامِلِي عَلَى أَنْ أَحِيفَ عَلَيْكُمْ فَأَمَّا مَا عَرَضْتُمْ مِنْ الرَّشْوَةِ فَإِنَّهَا سُحْتٌ وَإِنَّا لَا نَأْكُلُهَا فَقَالُوا: بِهَذَا قَامَتْ السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ [1] ''وہ خیبر والوں کے مال کا اندازہ لگایا کرتے۔یہود نے اپنی خواتین کے کپڑے زیورات ان کے لیے جمع کیے اور کہا کہ عبدا للہ یہ آپ کےلیے ہیں۔آپ ہمارے ساتھ نرمی کریں اور اس حصہ میں کمی کریں۔عبد اللہ بن رواحہ بولے: اے یہودیو! اللہ کی قسم! میرے نزدیک تم اللہ کی بدترین مخلوق ہو، میں یہ لینے والا نہیں کہ تمہارے ساتھ مل جاؤں۔جو تم نے مجھے رشوت پیش کی ہے، وہ حرام مال ہے جسے ہم ہاتھ نہیں لگاتے۔یہودی کہہ اُٹھے کہ اسی لیے آسمان وزمین قائم ہیں۔'' بعض احادیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں وَلَقَدْ جِئْتُكُمْ مِنْ عِنْدِ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَىَّ کہ ''میں تمہارے پاس انسانوں میں سے محبوب ترین شخصیت کے پاس سے آیا ہوں۔''اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جب کسی انسان کا دل اللہ کی رضا کا طالب ہوجائے، اس کے نفس کی اصلاح ہوجائے تو اس کے رویوں کی اصلاح ہوتی ہے، اس کے رویوں سے اس کے معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے۔وہ اپنے فرائض سے غفلت نہیں برتا، اس کا ایمان اس کو بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔اگر وہ یہاں دھوکا کرے گا تو اللہ مالک الملک اس کے مال سے برکت اُٹھا لے گا، اور اس کو کہیں اور سے بدترین گھاٹا پڑ جائے گا، اس طرح وہ اپنی قوم کا بھی امین بن جاتاہے۔ایمان اور بندگی صرف اللہ سے تعلق کی ہی اصلاح نہیں کرتے، قومی کردار کی بھی تشکیل کرتے اور معاشرے میں خیروبرکات کا سبب بنتے ہیں۔اسلام ہمیں اس بات کی ہی تلقین کرتا ہے۔ جہاں تک اہل مغرب کی ظاہری کامیابی کی بات ہے تو اوّل تو یہ صرف اسی دنیا کی کامیابی ہے، آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں، اس لیے وه مسلمانوں کے لیے مثال نہیں بن سکتے۔پھر ان کے اموال ونعمتیں ان پر اللہ کی رضا مندی کی دلیل نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ڈھیل دیتے ہیں۔اللہ گناہوں پر فوری گرفت نہیں کرتےاور اس پر بہت سی آیاتِ کریمہ شاہد ہیں۔یوں بھی دنیا دار الجزا نہیں، دار العمل ہے، اصل فیصلے اور بدلے محشر میں ہونے ہیں۔ پھر اہل مغرب کا اللہ کی نعمتوں سے مزے اُڑانے کا نظریہ بھی صحیح نہیں، بلکہ یہ دیگر اقوام
[1] موطا امام مالك:باب ماجاء فی المساقاة