کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 27
ذریعے انسانیت کو ایسے الم ناک سانحوں سے گزرنا پڑا جس نے انسان کی نسلوں کو مسخ کر دیا۔ظاہر ہے کہ سائنس تو محض ایک آلہ ہے، دولت واختیار بھی مقاصد کو پانے کا ایک وسیلہ ہے، لیکن مقاصد کا تعین اس سے بلند تر چیز ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے دین کو بھیجا ہے جو زندگی، دولت، طاقت اور سائنس کو ایک واضح مقصدیت عطا کرتا ہے۔
۳۔پاکستان میں اس کی تازہ مثال ملاحظہ ہو کہ جب انسان کا ایمان مضبوط نہ ہو، مقصدِ زندگی واضح نہ ہو، ربّ کی بجائے وہ درہم ودینار اور دنیوی مفادات، اختیار واقتدار کا اسیر ہو تو جنرل مشرف جیسے المیے وجود میں آتے ہیں۔پاکستانی قوم چودہ برسوں سے وحشت ناک قتل وغارت کا شکار ہے، پوری قوم ایک دوسرے کے ساتھ جنگ آزما ہے، نظریاتی بحران اور فکری جنگ زوروں پر ہے۔طالبان مخالفت اور طالبان حمایت نے ہمارے اعصاب شل کردیے ہیں، اس جنگ نے ہماری معیشت، معاشرت اور سیاست وعدل پر اَن منٹ نقوش ثبت کیے ہیں۔یہ جنگ بھی ایک فرد کی جاہ پرستی اور ڈالر پسندی کا شاخسانہ ہے۔اگرپرویز مشرف اس وقت پاکستان کا یوں غاصب حکمران نہ ہوتا، اس کو ڈالروں کی یوں ہوس نہ ہوتی تو آج پوری قوم اس جرنیل کی سپراندازی کی یہ بدترین قیمت نہ بھگت رہی ہوتی۔اگر اس کا ایمان محفوظ ہوتا، دنیا کے مفادات اور ڈالر پونڈ اس کے سامنے ایمان سے زیادہ قیمتی نہ ہوتے تو آج پاکستان امریکہ کی اس جنگ کا بدترین شکار نہ ہوتا اور یوں پاکستانی اَفواج اور سرحدی صوبے کے بازوئے شمشیر زن آپس میں سر بکف نہ ہوتے۔ایمان انسان کو بکنے نہیں دیتا اور دنیا کے ہلکے مفادات کے لیے جھکنے نہیں دیتا۔
دین یعنی اللہ کی بندگی انسان کو یہ شعور عطا کرتی اور اس میں یہ حوصلہ پیدا کرتی ہے کہ وہ ہلکے مفادات کے لیے اپنے ایمان کو نہ بیچے، آخرت کی دائمی نعمتوں کو دنیا کے اَرزاں دام پر فروخت نہ کرے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی تربیت یوں کی تھی کہ اللہ کی بندگی کو وہ ہرشے پر مقدم رکھتے۔چنانچہ خیبر والوں سے خراج لینے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبد اللہ بن رواحہ کو ہر سال بھیجا کرتے، ان کا رویہ مشاہدہ کریں:
فَيَخْرُصُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ يَهُودِ خَيْبَرَ قَالَ فَجَمَعُوا لَهُ حَلْيًا مِنْ حَلْيِ نِسَائِهِمْ فَقَالُوا لَهُ هَذَا لَكَ وَخَفِّفْ عَنَّا وَتَجَاوَزْ فِي الْقَسْمِ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ رَوَاحَةَ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ وَاللّٰهِ إِنَّكُمْ لَمِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اللّٰهِ إِلَيَّ