کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 26
''اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت ڈال دی، تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔'' [1]
کسی قوم وملت کے لیے سب سے بڑا انعام باہمی اتفاق واتحاد ہے اور یہ اتفاق واتحاد کسی نظریہ پر ہی ہوسکتا ہے، ایسا نظریہ جو باہمی مفادات سے بالاترہو۔اس لحاظ سے اُلفت کا پیدا کرنا بھی اللہ کا بہت بڑا انعام ہے اور اُلفت کا مرکز عطا کرنا، یعنی اللہ کی بندگی اور اس کی اطاعت، اس کے کلمہ کی سربلندی اور اس کے قیام کے لیے جدوجہد، یہ بھی اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔اسلام نے ہمیں اتحاد واتفاق کے مراکز عطا کیے یعنی اللہ کا قرآن اور نبی کا فرمان... قرآن اور ذاتِ نبوت، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وفعل بھی شامل ہےاور یہی مسلمانوں کے مرکزِ وحدت ہیں۔
۲۔جب انسانوں کی نظر باہمی مفادات پر ہی ہو، ان کی ہدایت کا کوئی مرکز ومنبع نہ ہو تو پھر سائنس وٹیکنالوجی، طاقت ودولت انسانوں کے لیے رحمت ہونے کے بجائے باعثِ زحمت بن جاتے ہیں۔اس بات کی تصدیق موجودہ مغربی اقوام سے ہوتی ہے۔بیسویں صدی میں مغربی قوموں نے بے تحاشا عسکری طاقت جمع کرلی، دنیا بھر کے مال ودولت پر قابض ہوگئے، عالمِ اسلام سمیت پوری دنیا ان کے زیر نگین ہوگئی۔لیکن یہ قومیں سائنس وٹیکنالوجی کے عروج کے بعد، آپس میں ہی برسر پیکار ہوگئیں۔جنگ عظیم اوّل اور دوم مغربی اقوام کے مابین ہی لڑی گئیں اور مسلم اقوام ان جنگوں میں اُن کے حاشیہ نشین سے زیادہ کوئی حیثیت نہ رکھتے تھے۔انہی جنگوں میں استعماری طاقتوں کی کمزوری نے دنیا بھر میں ان کی حکومتوں کو منتشر کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں مسلم ممالک زمین کے سینے پر عالم وجود میں آگئے۔ان جنگوں میں انسانیت کو اتنا بڑا نقصان پہنچا جتنا اس سے قبل کی اُنیس صدیوں کی تمام جنگوں کی مجموعی ہلاکتوں میں نہیں پہنچا تھا۔سائنس کا تو کوئی ذہن اور شعور و دماغ نہیں ہوتا۔اس سائنس نے انسان کی ہلاکت کے ایسے ہتھیار بنائے کہ انسانیت کی سب سے بڑی مجرم یہی سائنس بنی جو انسان کی بڑی محسن کہلاتی ہے۔اس سائنس کے
[1] سورة آل عمران: ۱۰۳