کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 25
آپس کے سرپھٹول اور باہمی اختلافات سے ہی نجات نہیں ملتی اور یہ کسی اجتماعیت کے لیے سب سے نقصان دہ امر ہے۔کسی اجتماعیت کے آپس میں سیسہ پلائی دیوار ہونے کے لیے کوئی ایسا نظریہ ہونا چاہیے جو باہمی مفادات کی جنگ سے بلند کرکے، تمام انسانوں کو اس جھنڈے تلے متحد کردے اور یہ جھنڈا ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے کلمہ کی سربلندی کا مبارک ترین فرض ہوسکتا ہے۔کوئی بھی انسان دوسرے انسان کی حکومت دیر تک برداشت نہیں کرسکتا، لیکن اللہ مالک الملک کی حکومت وحاکمیت اور بندگی وطاعت میں انسان اس وقت تک اطمینان سے زندگی بسر کرسکتے ہیں جب تک اللہ کی حکومت قائم رہے اور جب اللہ کی حکومت ختم ہوکر، اللہ کی حاکمیت کے نام پر انسان اپنے جیسے انسانوں کا غلام بن جائے تو پھر آپس میں اتحاد واتفاق کا نظریہ ختم اور باہمی جنگ شروع، مفادات کی اس جنگ میں کبھی کوئی غالب اورکبھی کوئی۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے'حبل اللّٰہ'اللہ کی رسّی کو ہی مرکز قرار دیا، اور اس پر سب کو جم جانے اور اختلافات ختم کرنے کا حکم دیا، اس کو اپنا بہت بڑا انعام بتایا کہ اللہ نے اتفاق کا ایک کلمہ اور عقیدہ عطا کیا ہے۔قرآنِ کریم میں فرمایا: ﴿وَأَلَّفَ بَينَ قُلوبِهِم لَو أَنفَقتَ ما فِى الأَر‌ضِ جَميعًا ما أَلَّفتَ بَينَ قُلوبِهِم وَلٰكِنَّ اللّٰهَ أَلَّفَ بَينَهُم إِنَّهُ عَزيزٌ حَكيمٌ ﴾ [1] ''ان کے دلوں میں باہمی اُلفت بھی اُسی نے ڈالی ہے۔زمین میں جو کچھ ہے،تو اگر سارے کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا ہے تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا۔یہ تو اللہ ہی نے ان میں اُلفت ڈال دی ہے۔وه غالب حکمتوں والاہے۔'' اللہ تعالیٰ نے اسلام کو بہت بڑی نعمت قرار دیا ہے، جس کے سبب تمام مسلمان بھائی بھائی بن کر متحد ومتفق ہوگئے۔اور کسی قوم کے لیے اتحاد واتفاق سب سے بڑی نعمت ہے۔قوم کی اجتماعیت سب سے بڑی قوت ہے، اس کے بغیر قوم منتشر افراد کا ریوڑ ہے۔اسلام نےہمیں اجتماعیت کا محور عطا کیا : ﴿وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللّٰهِ جَميعًا وَلا تَفَرَّ‌قوا وَاذكُر‌وا نِعمَتَ اللّٰهِ عَلَيكُم إِذ كُنتُم أَعداءً فَأَلَّفَ بَينَ قُلوبِكُم فَأَصبَحتُم بِنِعمَتِهِ إِخو‌ٰنًا وَكُنتُم عَلىٰ شَفا حُفرَ‌ةٍ مِنَ النّارِ‌ فَأَنقَذَكُم مِنها﴾
[1] سورةالانفال: ٦٣