کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 24
کریم میں مسلم حکومت کا بیان [1] کیاہے۔عبادات کے ذریعے فرد اور معاشرے کی درست سمت پر تشکیل ہوتی ہے۔اگر شخصیت کی تشکیل درست زاویوں پر نہ ہو، انسان کے رجحانات اور ترجیحات کا واضح تعین نہ ہو تو یہ انسان دنیا جہاں کی تمام صلاحیت رکھنے کے باوجود، مٹی کا ڈھیر بن جاتاہے۔الله سے تعلق اور اس پر ایمان بہت لازوال قوت ہے، یہ قوت انسانوں کو زندگی میں متوازن رکھتی ہے۔اس قوت کے بغیر بہت بڑی جماعت بھی بے وزن ہوجاتی ہے۔ذیل میں اس کی بعض مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
۱۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
((يُوشِكُ الأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا)). فَقَالَ قَائِلٌ وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ قَالَ: ((بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَيَنْزِعَنَّ اللّٰه مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ اللّٰه فِى قُلُوبِكُمُ الْوَهَنَ)). فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ الله! وَمَا الْوَهَنُ قَالَ: ((حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ)) [2]
''عنقریب قومیں تم پر ٹوٹ پڑیں گے، جس طرح کھانے والے تھال پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔کہنے والے نے کہا کہ کیا ہم اس دن کم ہوں گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: نہیں بلکہ تم اس وقت کثیر تعدا دمیں ہوگے، لیکن تم خس وخاشاک کی طرح ہوگے، جس طرح سیلاب پر خس وخاشاک بہتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے دلوں سے تمہارا رعب ختم کردیں گے اور تمہارے دلوں میں 'وہن' کی بیماری ہوگی۔کہنے والے نے پوچھا: یارسول اللّٰہ! وہن کیا ہے؟فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔''
اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ انسانوں کی کثرت اور ان کو حاصل دنیا جہاں کی نعمتیں کس طرح بے وقعت اور ریت کا ڈھیر بن جاتی ہیں جب ان میں دنیا کی بے پایاں محبت پیدا ہوجائے اور اللہ کا ڈر جاتا رہے۔جب انسان دنیوی مفادات کو اہمیت دینا شروع کردیں تو پھر
[1] ﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّٰهُم فِى الأَرضِ أَقامُوا الصَّلوٰةَ وَءاتَوُا الزَّكوٰةَ وَأَمَروا بِالمَعروفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ وَلِلَّهِ عٰقِبَةُ الأُمورِ ﴾(سورة الحج: ۴۱) ''یہ وه لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں انہیں حکومت دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔اور تمام کاموں کا انجام اللّٰہ کے اختیار میں ہے۔''
[2] سنن ابی داؤد:۴۲۹۷