کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 23
دوني أو قد عمَّتْني وعمَّتْكم فهلمُّوا فلندعُ اللّٰه يصلح قلوبنا وأن يرحمنا... وهو يقول: اللهم لا تجعلْ هلاك أمة محمد علىٰ يديَّ" [1]
''اپنے بارے میں اللہ سے ڈرو اور ان اعمال کے بارے میں جو لوگوں سے مخفی ہیں۔یقیناً تمہاری وجہ سے میری اور میری وجہ سے تمہاری آزمائش ہورہی ہے۔میں نہیں جانتا کہ اللہ کی ناراضی مجھ سے ہے، یا میری بجائے تم سے ہے یا یہ ناراضی مجھ اور تم دونوں پر پھیلی ہوئی ہے۔آؤ، اللہ سے دعا کریں کہ ہمارے دلوں کی اصلاح فرما دے اور ہم پر رحم کردے۔آپ یوں اللہ سے فریاد کیا کرتے: یا الٰہی ! اُمتِ محمدیہ کو ان کے ہاتھوں ہلاکت سے دوچار ر نہ کردے۔''
اگر اسلامی فلاحی ریاست بنانا مقصود ہے، تو ہمیں فلاح کے سلسلے میں مغرب اور اسلام کے تصورات میں امتیازکو ملحوظ رکھنا پڑے گا۔قرآن کی رو سے ''کامیاب انسان وہ ہے جو آگ سے بچ گیا اور جنت کا مستحق بن گیا'' [2]، جبکہ اہل مغرب کا تصور فلاح ہی خالص دنیوی اور مادی ہے۔اسلام کی روسے مسلمانوں کی سب سے اہم فلاح، ان کو دین کے احکامات پر عمل کرانا ہے، تاکہ وہ ہر لحاظ سے ایک کامیاب انسان بن سکیں، جبکہ اہل مغرب کے ہاں دین، انتشار پھیلاتا اور قوم کو فرقہ واریت میں تقسیم کرتا ہے، اس کو قومی واجتماعی معاملات میں سرے سے دخیل ہی نہیں ہونا چاہیے۔دونوں میں بنیادی نظریہ میں ہی فرق ہے۔
ایمان اور عمل صالح کے بغیر مسلم معاشرہ ترقی نہیں پاسکتا !!
نبی کریم نے اپنی دعوت وتبلیغ اور عملی مثال کے ذریعے سب سے مرکزی کام مکمل کیا۔لوگوں کو اللہ کا بندہ بنایا، ان کو اللہ کی بندگی سے منسلک کیا۔اور یہی فریضہ اللہ تعالیٰ نے قرآن
[1] طبقات ابن سعد:۳؍۳۱۲،۳۲۲
[2] ﴿كُلُّ نَفسٍ ذائِقَةُ المَوتِ وَإِنَّما تُوَفَّونَ أُجورَكُم يَومَ القِيٰمَةِ فَمَن زُحزِحَ عَنِ النّارِ وَأُدخِلَ الجَنَّةَ فَقَد فازَ وَمَا الحَيوٰةُ الدُّنيا إِلّا مَتٰعُ الغُرورِ ﴾ (سورة آل عمران: ۱۸۵) ''ہر جان موت کا مزه چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیئے جاؤ گے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بے شک وه کامیاب ہوگیا، اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا عارضی سامان ہے۔''