کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 22
امام ومعلّم تک محدود نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانِ کامل اور ہر طبقہ حیات کے لیے مثالی ترین اُسوہ کا مقام رکھتے ہیں۔آپ شوہر، بیٹا، بھائی، والد، ہمسایہ کے لحاظ سے اُسوۂ حسنہ ہونے کے ساتھ ساتھ بطور سیاستدان، حکمران، سپہ سالار، قاضی، میڈیا پرسن، معیشت دان اور ماہرسماجیات کے بھی مثالی نمونہ کے حامل ہیں۔ایسا نہیں کہ ان کاموں کے لیے ہمیں مغرب کے انسان پرست نظام اور اس کی نگاہیں خیرہ کرنے والی ظاہری چمک دمک کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا، اور وہاں سے حکمران یا ماہر سماجیات کا رول ماڈل ڈھونڈنا پڑے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کے دلوں کی اصلاح کی طرف توجہ دی، اور اس مضبوط عمارت کی بنیاد رکھی جس کے ثمرات، خلافتِ راشدہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں نظر آئے۔لوگ تو آج سیدنا عمر بن خطاب کی تعریف کرتے ہیں، لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تربیت جس نے کی تھی، وہ تو نبی کریم کی ذات تھی۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لیے بھی آپ کی ذات ہی بطورِ حکمران رول ماڈل تھی، اور انہیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سانچے میں ڈھالا تھا۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور کی تعریف کرنے والے، ان کے دور کی تعریف اس انداز میں کرتے ہیں جو اُن کا نظریہ ہے، جب کہ اس دور کی اصل تعریف یہ ہے کہ وہاں اللہ کے احکام کی پاسداری بھرپور طور پر کی جاتی تھی۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے حکام کے سلسلے میں نماز کی پابندی کو سب سے زیادہ اہمیت [1]دیتے، اور اللہ کی سرزمین میں اس اعتماد سے حکومت کرتے تھے کہ کتبِ تاریخ میں آتا ہے کہ آپ نے مصر کے دریائے نیل کے بند ہوجانے پر اس کو حکم دیا تھا کہ اگر تجھ پر اللہ کا حکم چلتا ہے تو اُس مخلوق پر اپنی روانی جاری رکھ جو اللہ کے احکام کی پاسداری کرتی ہے،اس كے بعد دریاے نیل کبھی رکا نہیں۔جب اٹھارویں صدی ہجری (عام الرمادہ) میں حجاز میں قحط پڑگیا، تو انتظامی تدبیروں سے پہلے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اہل حجا ز کے اللّٰہ سے تعلق کا محاسبہ کیااور فرماتے: "اتقوا اللّٰه فيما أنفسكم وفيما غاب عن الناس من أمركم، فقد ابتُليتُ بكم وابتُليتم بي، فما أدري السُّخطة عليَّ دونكم أو عليكم
[1] حکام کو فرمانِ عمر : إِنَّ أَهَمُّ أُمُورِكُمْ عِنْدِي الصَّلَاةَ، مَنْ حَفِظَهَا وَحَافَظَ عَلَيْهَا حَفِظَ دِينَهُ، وَمَنْ ضَيَّعَهَا فَهُوَ لِسِوَاهَا أَضْيَعُ ''میرے نزدیک تمہارا سب سے اہم کام نماز ہے۔جو اس کا محافظ اور اس کی نگہداشت کرتا ہے، وہ اپنے دین کا بھی محافظ ہے۔اور جس نے اسے ضائع کردیا، وہ اس کے ماسوا ذمہ داریوں کو زیادہ ضائع کرنے والا ہے۔'' (مصنف عبد الرزاق: ۲۰۳۸)